شمائلہ
آخر شمائلہ نے جانے کا ارادہ کرہی لیا۔
جس نے بھی سنا حیران رہ گیا۔ آخر اتنی جلدی بھی کیا تھی۔ سب سے زیادہ پریشانی تو ہم سب کو تھی۔ بیگم بالکل گم صم تھیں، ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھاکہ وہ کہیں تو کیا کہیں؟
شمائلہ سے پہلی ملاقات آج بھی یاد ہے۔
ایک عرصہ بعد گھر گیا تھا، کافی بڑا سا آنگن اور چاروں جانب چاروں چچا کے مکانات۔ چچا تو سب کے سب اﷲ کو پیارے ہوگئے تھے۔ ہاں چچیرے بھائی موجود تھے۔ محسن بھائی تو ارریا ہی میں بس گئے تھے۔ گاؤں سے انھیں لینا دینا نہیں رہاتھا۔
میرے گھر کے سامنے حسن کا آنگن تھا، سامنے اُتّر کی جانب اس کا مکان تھا جس کے وارنڈے میں ایک ننگی چوکی پڑی رہتی تھی۔ ایک صبح میں اپنے وارنڈے پر بیٹھا تھاکہ اچانک سامنے سے ایک بچی کے رونے کی آواز آئی۔ میں نے دیکھا حسن کے اُسارے پر رکھی چوکی پر ایک دو ڈھائی سال کی بچی قرأت کے انداز میں رو رہی ہے۔ میں اسے غور سے دیکھتارہا پھر آفاق سے دریافت کیا:
’’یہ بچی کون ہے اور کیوں رو رہی ہے؟‘‘
’’یہ حسن کی بچی ننیا ہے‘‘ پھر ہنستے ہوئے بولا:
’’رونے کی وجہ تو اس بچی کو بھی نہیں معلوم۔‘‘
میری دلچسپی اس میں بڑھ گئی۔ میں نے یہیں سے اسے ڈانٹتے ہوئے کہا:
’’اے نِنّی کیوں رو رہی ہے؟‘‘ اچانک اس کے رونے میں بریک لگ گیا۔ میں نے سوچا بڑی فرماں بردار بچی ہے، فوراً چپ ہوگئی۔میری توجہ دوسری جانب ہوئی ہی تھی کہ وہ پوری رفتار سے پھر شروع ہوگئی۔ میں نے پھر ڈانٹا وہ پھر چپ ہوگئی، اور یہ تماشا بہت دیرتک ہوتا رہا۔ اس کے رونے کی وجہ مجھے کوئی نہیں بتا پایا۔ ایک دن میں نے حسن ہی سے دریافت کیا:
’’تمہاری بیٹی روزانہ صبح بلاناغہ کس وجہ سے روتی ہے؟‘‘ وہ بھی ہنسنے لگا۔
’’نِنّی!‘‘ میرے اثبات میں سرہلانے پر وہ گویا ہوا۔
’’وجہ تو خود مجھے بھی نہیں معلوم۔ وہ روزانہ سب سے قبل بیدار ہوتی ہے اور اس چوکی پر بیٹھ کر روتی ہے۔ شروع میں تو ہم لوگوں نے اسے چپ کرانے کی کوشش کی، کھانے کو دیا لیکن اس کا رونا بند نہیں ہوا۔ اب کوئی دھیان بھی نہیں دیتا۔ خود ہی روتی ہے اور پھر چپ بھی ہوجاتی ہے۔‘‘
مجھے حیرت ہوئی کہ اس بچی کے والدین بھی اس کے رونے پر فکرمند نہیں ہیں بلکہ اسے ایک روٹین ورک مان کر نظرانداز کررہے ہیں۔
بات آئی گئی ہوگئی۔۔۔ ایک بار جب گھر گیا تو وہ چوکی خالی نظر آئی۔ دریافت کرنے پر میرے بھائی آفاق نے بتایا۔
’’ننیا نے اب روزانہ رونا چھوڑ دیاہے۔‘‘
نہ تو اس کے رونے کی وجہ کسی کو معلوم ہوسکی اور نہ ہی چپ ہونے کی۔ اسے دیکھنے کی خواہش جاگی۔ دیکھا آنگن میں ایک تین چار سال کی بچی کھیلنے میں مست ہے۔ میں نے اسے بلاکر پوچھا:
’’تم نے اب رونا کیوں چھوڑ دیا؟‘‘
وہ حیرت سے میری طرف دیکھتی رہی، پھر کھلکھلاکر ہنستی ہوئی چلی گئی۔
دیکھتے ہی دیکھتے حسن آٹھ بچوں کا باپ بن گیا۔ میں نے ایک دن اسے تاکیدکی:
’’اس طرح بچوں کی لائین کیوں لگاتے جارہے ہو؟‘‘
’’میں کہاں لگا رہا ہوں۔ یہ تو خدا کی دین ہے۔ میں کرہی کیا سکتا ہوں۔‘‘
’’اتنے بچوں کی پرورش مشکل ہے۔ تمہارے وسائل محدود ہیں اور بچے لامحدود، بعد میں بہت دشواری ہوگی۔‘‘ اس نے بڑے فلسفیانہ انداز میں جواب دیا:
’’بھائی صاحب آپ پڑھے لکھے ہیں اس لیے اتنی دور کی بات سوچتے ہیں۔ میں تو بس اتناہی جانتا ہوں کہ جس نے منھ بنایا ہے رزق کا انتظام بھی وہی کرے گا۔ میں مالک کی مرضی میں دخل کیسے دے سکتا ہوں۔‘‘
میں اس کی معصومیت اور یقین کے سامنے لاجواب ہوگیا۔
حسن کی آمدنی بہت کم تھی۔ وہ گاؤں میں پٹوے اور دیگر اجناس کی خریدوفروخت کا کام کرتاتھا۔ اس کی بہت سی زمین رہن پڑی ہوئی تھی جس کو اس نے دوبارہ حاصل کیا۔ وہ محنتی تھا، کھیتی باڑی کرتا، لیکن اس کی غیرت نے کبھی یہ گوارا نہیں کیاکہ وہ کسی کے سامنے ہاتھ پھیلائے۔ میں واپسی میں اس سے دریافت کرتا:
’’حسن کوئی ضرورت ہے تو بتاؤ۔‘‘ وہ مسکرا دیتا۔
’’نہیں بھائی صاحب، سب اﷲ کا کرم ہے۔‘‘
پھر اچانک معلوم ہواکہ وہ دہلی چلا گیاہے اور وہاں کسی کپڑے کی دُکان میں کام کرنے لگاہے۔ گھر سے اتنی دور رہ کر وہ بچوں کے لیے فکرمند رہنے لگا۔ اسی درمیان اسے والد کی موت کی اطلاع ملی، لیکن وہ جنازے میں شامل نہ ہوسکا۔ اس بار گھر آیا تو پھر واپس ہی نہ گیا۔
وہ مجھ سے بہت کھل کر گفتگو نہیں کرپاتا تھا، ہاں بیگم سے اس کی خوب پٹتی تھی۔ بھابھی سے کبھی کبھی وہ اپنا دکھ بھی شیئر کرلیتا تھا، لیکن اپنے دکھ کا رونا نہیں روتاتھا۔
گزشتہ سال رمضان سے قبل بیگم گاؤں سے لوٹیں تو ایک دس گیارہ سال کی بچی ان کے ساتھ تھی۔ میرے دریافت کرنے پر انھوں نے بتایا:
’’یہ حسن کی بچی شمائلہ ہے۔ ایک بچی کی بھی ذمہ داری ہم لوگ لے لیں تو اسے آسانی ہوگی۔‘‘
حسن کی بچی کا سن کر مجھے ننیا کی یاد آگئی۔ میں نے شمائلہ سے دریافت کیا۔
’’ارے وہ ننیا کیسی ہے جو بچپن میں بلاناغہ رویا کرتی تھی۔‘‘ شمائلہ نے مسکراتے ہوئے بتایا:
’’میرا ہی نام ننیا ہے۔‘‘
میں نے اسے غور سے دیکھا۔ مجھے ننیا اور شمائلہ میں کوئی مماثلت نظر نہ آئی۔ کہیں سے دیکھ کر یہ احساس نہیں ہوتا تھاکہ یہ بچی روزانہ رویاکرتی تھی۔ شمائلہ اس کے برعکس ہمیشہ مسکرانے والی لڑکی۔ بدن میں پھرتی اتنی گویا بجلی بھری ہو۔
شمائلہ پر سب سے پہلے قبضہ میری بیٹی زین نے جمایا اور اس نے اعلان کردیا:
’’شمائلہ صرف میرے ساتھ رہے گی اور صرف میری بات سنے گی اور کسی کی نہیں۔‘‘
وجہ یہ تھی زین تنہا تھی۔ کوئی لڑکی اس کی سہیلی نہ تھی جو اس کے ساتھ کھیلتی۔ وہ عمر میں زین سے سال بھر بڑی رہی ہوگی، لیکن دیکھنے میں دونوں ہم عمر ہی لگتی تھیں۔ اب دونوں کا اُٹھنابیٹھنا، لکھنا پڑھنا، کھیلنا کودنا سب ساتھ ہونے لگا۔
پڑھنے میں شمائلہ ذہین تھی، لیکن انگریزی اور حساب میں کمزور ہونے پر داخلہ میں دشواری ہونے لگی۔ حساب کا ذمہ شانو نے لیا اور انگریزی کی ذمہ داری زین نے لی۔ زین کا یہ حال کہ پوری کتاب ایک دن میں ہی پڑھانے پر اتاولی اور شمائلہ پریشان کہ وہ کیا کرے۔ بے چاری کو روزانہ اپنی ٹیچر زین سے ڈانٹ سننی پڑتی۔ ایک دو دن تو میں شاگرد اور ٹیچر کی بے بسی سے لطف اندوز ہوا پھر زین کو سمجھایا:
’’بیٹا اس طرح نہیں پڑھایا جاتا۔‘‘ زین نے کھسیاکر کہا۔
’’ابو میں تو ٹھیک پڑھاتی ہوں، لیکن یہ شمائلہ تو کچھ سمجھتی ہی نہیں۔‘‘
تب میں نے اسے سمجھایاکہ ایک ہی دن میں پوری کتاب نہیں پڑھائی جاتی۔ تھوڑاتھوڑا سبق دینے سے ہی سبق یاد ہوگا۔
شمائلہ اور زین میں اکثر لڑائی ہوتی۔ لڑائی کی وجہ بھی عجیب ہوتی۔ زین کو جب بھی کوئی کام جیسے پانی لانے یا چائے بنانے کہا جاتا شمائلہ دوڑکر خود یہ کام انجام دینے کی کوشش کرتی، تب زین ناراض ہوتی کہ شمائلہ اسے کام ہی نہیں کرنے دیتی۔
دھیرے دھیرے شمائلہ پورے گھر کی مجبوری بن گئی اور اچانک گھر کی سب سے اہم فرد ۔
’’میری گنجی کہاں ہے؟‘‘ وہ جھٹ گنجی حاضر کردیتی۔ بچے اپنی ٹائی تلاش کررہے ہیں اور شمائلہ ٹائی لے کر حاضر۔ حد تو یہ ہے کہ زین کے اسکول کی کتابیں اور کاپیاں بھی شمائلہ سنبھال کر رکھتی۔ بیگم کالج سے آکر بستر پر دراز ہوتیں اور بن کہے شمائلہ پاؤں دابنا شروع کردیتی، منع کرنے پر کہتی:
’’چچی کالج میں تھک گئی ہوں گی، دابنے سے آرام ملے گا۔‘‘ اور پھر دوسرا پاؤں زین پکڑلیتی اور دونوں میں مقابلہ ہوتاکہ کون بہتر پاؤں دابتی ہے۔ ہربار شمائلہ ہی بازی مارجاتی۔ میں دفتر سے آکر تھکاماندہ دراز ہوتا اور شمائلہ حاضر۔
’’چچا تھک گئے ہوں گے، لائیے پاؤں دبا دوں۔‘‘
میں حیرت زدہ رہ جاتاکہ یہ بچی دلوں کے بھید جانتی ہے کیا؟ اپنی بیٹی تو تین بار بلانے پر ایک بار آتی ہے اور یہ بھتیجی ہوکر بن بلائے حاضر۔ میرے دیگر لڑکے بھی اپنی بہت سی ضرورتوں کے لیے اس ننھی سی جان پر منحصر کرنے لگے۔ شیبو نے تو اسے اپنی پسند کا نام دے دیا۔ ’’روبی‘‘
ایک دن میں نے دیکھا روبی پکارنے پر شمائلہ دوڑی جارہی ہے۔ اس نے بغیر کسی تکلف کے بھائی کا دیا ہوا نام قبول کرلیا تھا۔
اب پورے گھر میں اس گیارہ سالہ بچی کا راج قائم ہوگیا۔ لنچ میں آکر ابھی ظہرکی نماز ختم بھی نہ کی کہ شمائلہ کی آواز آئی:
’’چچا کھانا نکال دیا ہے آجائیے۔‘‘
اب میری ساری ضرورت شمائلہ نے اوڑھ لی۔ مجھے کب پانی چاہیے، کب چائے؟ کب گنجی کی تلاش ہے کب جانگھیے کی۔کب موزا تلاش کررہا ہوں کب جوتا۔ کب مجھے تھکان ہورہی ہے، کب میں سونا چاہتا ہوں اور کب مجھے دوا لینی ہے۔ ان سب پر شمائلہ حاوی ہوگئی۔ مجھے محسوس ہونے لگاکہ میرے اندر شمائلہ داخل ہوگئی ہے اور میری ساری ضرورتوں کا خیال رکھنے لگی ہے۔
حیرت تو تب ہوئی جب پی۔ایم۔ سی۔ایچ کے ایمرجنسی وارڈ میں بیڈپر پڑی شمائلہ نے اچانک دوبجے رات میں مجھ سے پوچھا:
’’چچا آپ نے تو رات کا کھانا نہیں کھایا ہوگا؟‘‘ پھر خود ہی بولی:
’’کھانا تو آج بنا ہی نہ تھا۔ آپ سب تو مجھے لے کر یہاں آگئے۔‘‘
میں دوسری طرف منھ کرکے مشکل سے اپنی سسکی روک سکا، لیکن آنکھ سے آنسوؤں کی بے قابو دھار کو روکنا میرے بس میں نہ تھا، میں حیرت زدہ ہوں کہ یہ بچی کس مٹی کی بنی ہے۔ اس کا پورا بدن پٹیوں سے لدا پڑا ہے۔ سلائن کی بوتل جاری ہے۔ ڈاکٹرنے حرکت کرنے سے روک دیاہے اور اس حال میں بھی اس بچی کو میری فکرہے کہ میں نے کھانا نہیں کھایا۔ اس کی جگہ اگر میری بیٹی بھی ہوتی تو مجھے سامنے دیکھ کر صرف رو رہی ہوتی کہ ابو میری جان بچا لیجیے۔
اس رات ایک پل کے لیے بھی میں، میری بیگم اور میرا چھوٹا لڑکا عرفان نہیں سوسکے۔ کبھی شمائلہ کو دیکھتے، کبھی بے بسی سے ٹہلتے اور کبھی اسے تاکید کرتے۔
’’بیٹی اس طرح تم اپنے پاؤں مت ہلاؤ۔‘‘
آخر اس نے پوچھ ہی لیا:
’’چچا آپ مجھے پاؤں ہلانے سے منع کیوں کرتے ہیں؟‘‘ میں نے اپنے آنسوؤں پر قابوپاتے ہوئے کہا۔ ’’بیٹی تمہارے پاؤں میں سوئی لگی ہے جس سے پانی اندر جارہاہے۔ پاؤں ہلانے سے سوئی نکل جائے گی۔‘‘ اس نے سر اٹھاکر پانی کی بوتل اور پاؤں اُٹھاکر نڈل دیکھی پھر کہا:
’’اب دیکھ لیا۔ اب نہیں ہلائیں گے۔‘‘
مجھے حیرت ہوئی کہ اس نے اپنی بے چینی پر قابو پاتے ہوئے پاؤں اُٹھا پٹخ کرنا بند کردیا۔ اس کی بے بسی دیکھ کر میں اندر ہی اندر ٹوٹ رہا تھا۔ بیگم منھ چھپاکر بار بار اپنے آنسوؤں کو دوپٹہ میں جذب کررہی تھیں اور عرفان اس کے پاس کھڑا اس کے بالوں میں انگلیاں پھیر رہا تھا۔
یہ سب اچانک نہ جانے کیسے ہوگیا۔۔۔
۲۹؍اپریل کی شام ساڑھے پانچ بجے دفتر سے آیا۔ بریف کیس رکھ کر میں پودوں کو پانی دینے لگا گارڈن میں، زین، شمائلہ اور عرفان کبڈی کھیل رہے تھے۔ عرفان اپنے بڑے ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دونوں بہنوں سے بازی جیت رہا تھا۔ میں نے بچیوں کو جیت کے گُر سکھاتے ہوئے کہاکہ جیسے ہی عرفان کبڈی بولتے ہوئے تم لوگوں کی جانب آئے، دونوں بہن اس کے پاؤں پکڑلو اور اسے جانے ہی نہ دو۔ دونوں بہنوں نے اس پر عمل کیا، جیسے ہی عرفان کبڈی کہتا ہوا اس کی جانب آیا جھٹ شمائلہ نے لپک کر اس کے پاؤں پکڑلیے۔ عرفان اسے گھسیٹنے لگا اتنے میں زین نے بھی دوڑکر عرفان کو دبوچ لیا۔ اس طرح دونوں بہنوں نے مل کر بازی جیت لی۔ میں دیرتک ریفری کے فرائض انجام دیتا رہا۔ کھیل ختم ہونے پر دونوں کی فراکیں گندی ہوگئیں، دونوں نے فراک بدل لی۔ زین نے اپنا ایک کئی تہوں والا فراک شمائلہ کو پہنایا۔ مغرب بعد درمیانی کمرے میں ہم سب گفتگو کرتے رہے۔ اتنے میں ڈرائنگ روم میں گڈنائٹ کی ٹکیہ جلتی رہی تاکہ مچھر سے نجات مل سکے۔ جب مچھر سے نجات کی خبر عرفان نے دی تو سارے بچے ڈرائنگ روم میں آکر پڑھنے بیٹھ گئے۔ بیگم اپنی تھیسس کی ورق گردانی کرنے لگیں اور میں اپنے ٹیبل پر بیٹھ کر خطوط کے جواب لکھنے لگا، ساڑھے سات کا عمل ہورہا ہوگا۔
اچانک باہر سے کسی بچی کی عجیب سی چیخ سنائی دی۔ چوں کہ مچھروں کی وجہ کر کھڑکی اور دروازے بند تھے، اس لیے آواز واضح نہیں تھی۔ میں نے شیبو سے کہا۔
’’بیٹا ذرا دروازہ کھول کر دیکھو تو یہ چیخ پکار کیسی ہے؟‘‘
اس نے دروازہ کھولا تو میں بھی باہر لپکا، باہر کا نظارہ دیکھ کر حلق میں کانٹے اُگ آئے۔ وارنڈے سے نیچے کھڑی ایک بچی شعلوں میں گھری چیخ رہی تھی۔ مجھے تو پتہ بھی نہ چلاکہ شعلوں میں گھری یہ بچی کون ہے۔ میں بے تحاشا دوڑا اور بچی کو خود سے لپٹا لیا یہ سوچے بغیرکہ میرے کپڑوں میں بھی آگ لگ سکتی ہے۔ سامنے سے تو آگ بجھ گئی پیچھے سے لپٹیں قائم تھیں جسے میں نے اپنے ہاتھ سے بجھانے کی کوشش میں اپنی ہتھیلی اور انگلیاں جلالیں، پھرجلدی سے اس کے بدن کو چادر میں لپیٹ لیا۔ آگ بجھ گئی تو دیکھا سامنے گم صم شمائلہ کھڑی تھی۔
میرے بدن میں خون منجمد ہوگیا پورا لمبا چوڑا کئی تہوں والا سنتھیٹک فراک جوگھٹنے سے نیچے تک تھا جل چکا تھا، صرف کاٹن کی چڈی بچی ہوئی تھی جلدی سے دوچار ٹھنڈے بوتل کی پانی اس پر اُنڈیلی اور اسے لے کر پی۔ایم۔سی۔ایچ دوڑا۔ رات بھر جس عذاب میں مبتلا رہا، بیان سے باہر ہے۔ صبح ہوئی جو بھی ڈاکٹر سامنے آتا اس سے التجا کرتا۔
’’ڈاکٹرصاحب ذرا میری بچی کو ایک نظر دیکھ لیں۔‘‘ جواب ملتا۔ ’’برن (Burn) کیس ہے، میں تو سرجری کا ہوں، کوئی کہتا میں مڈیسن کا ہوں۔ آپ دس بجے ڈاکٹرسنہا سے کنسلٹ کریں، وہی برن کیس کے انچارج ہیں۔‘‘
آٹھ بجے صبح ایک سنیئرڈاکٹر پر نظر پڑی جوایک بے حد خوب صورت لیڈی ڈاکٹر یا اسٹوڈنٹ سے محو گفتگو تھے۔ میں نے ان سے سراپا التماس بن کر کہا۔
’’سر میری بچی جلی پڑی ہے۔ آپ ایک نظر دیکھ لیتے تو میری تسلی ہوجاتی۔‘‘ جواب ملا۔
’’کتنا دیکھوں جناب۔ یہاں تو دیکھتے دیکھتے آنکھیں پتھرا گئی ہیں۔ آپ کو پرابلم کیا ہے؟‘‘
’’شاید بینڈیج کی ضرورت پھرسے ہے۔‘‘ میری التجا پر انھوں نے چارٹ میں کچھ لکھا اور کہا۔ ’’جائیے او۔ٹی میں بینڈیج کروا لیجیے۔‘‘
میں او۔ٹی میں گیا تو وہاں ایک کمپاؤنڈر نے سمجھایا۔
’’آپ کس چکر میں پڑے ہیں جناب! یہاں کوئی آپ کی مدد نہیں کرے گا۔ آپ اسے اپولو برن ہاسپیٹل لے جائیے وہاں ڈاکٹرتیواری سب کچھ اپنے ہاتھوں سے کرتے ہیں۔‘‘
میں نوبجے صبح شمائلہ کو لے کر اپولو برن ہاسپیٹل آجاتا ہوں۔ سارے بیڈپر برن کیس کے ہی مریض ہیں۔ بہت سے شفایاب ہورہے ہیں، بہت سے شفاپاکر جاچکے ہیں۔ اﷲ کی ذات سے امید لگائے میں بچی کو ڈاکٹرتیواری کو سونپتے ہوئے کہتا ہوں:
’’ڈاکٹرٹچ دِ س لائف وِتھ اے ہوپ‘‘ ڈاکٹر مجھے مطمئن کرتے ہیں اور میں اب پُرامید ہوجاتا ہوں کہ اب شمائلہ بچ جائے گی۔
رات دس بجے میں شمائلہ سے دریافت کرتا ہوں:
’’بیٹی اب کیسی طبیعت ہے؟‘‘ وہ اپنی طبیعت بتانے سے قبل دریافت کرتی ہے:
’’چچا آپ مجھ سے ناراض تو نہیں ہیں نا؟‘‘ میں دل پر قابو پاتے ہوئے جواب دیتاہوں:
’’نہیں بیٹا آپ سے بھلا میں کیوں ناراض ہوں گا۔‘‘ پھر وہ دریافت کرتی ہے:
’’چچی تو ناراض نہیں ہیں؟‘‘ بیگم کے آنسو رواں ہوجاتے ہیں، میں ہی جواب دیتاہوں:
’’نہیں بیٹا چچی بھی ناراض نہیں ہیں۔‘‘ پھر میں پوچھتا ہوں:
’’بیٹی! تم اب اچھا محسوس کررہی ہو؟‘‘
’’ہاں چچا اب ٹھیک لگ رہاہے۔‘‘ پھر وہ سوالیہ لہجہ میں دریافت کرتی ہے:
’’امی ابو کو خبر دی گئی ہے؟ وہ لوگ آرہے ہیں؟‘‘
’’ہاں بیٹا وہ کل صبح پٹنہ پہنچ رہے ہیں۔‘‘ پھر وہ مجھ سے پانی مانگتی ہے۔ میں اسے دوچار گھونٹ پانی پلاکر تاکید کرتا ہوں:
’’بیٹی تم سے کوئی ناراض نہیں ہے، تم اب آرام سے سوجاؤ۔‘‘
شمائلہ تو نام ہے اسی بچی کا جو بے حد فرماں بردار ہے۔ وہ تھوڑی دیرتک میری جانب دیکھتی رہتی ہے پھر میری انگلی پکڑکر آنکھ بند کرلیتی ہے۔ میں سوچنے لگتا ہوں کہ ایک چھوٹی سی غلطی جو اس کے لیے جان لیوا ثابت ہورہی ہے، اس کا احساس اسے اندر ہی اندر کس طرح سال رہاہے۔
دراصل جب سارے بچے پڑھ رہے تھے تو وہ بھی کتاب لینے گئی تو اسے خیال آگیاکہ اس کے کچھ کپڑے پیچھے پڑے رہ گئے ہیں جسے اس نے غسل کے بعد سوکھنے کے لیے دیاتھا اور شام میں اٹھانا بھول گئی تھی۔ پیچھے اندھیرا تھا اس لیے اس نے موم بتی جلائی اور اسے ہوا کی زد سے بچاتی ہوئی پیچھے کی جانب گئی۔ گلی میں ہوا کی زد میں موم بتی بھڑک اُٹھی تو اس نے اسے خودسے قریب کرلیا تاکہ وہ بجھنے نہ پائے، اسے یہ احساس بھی نہیں رہاکہ سنتھیٹک فراک میں آگ بھی پکڑسکتی ہے۔ موم بتی کی لَو فراک سے سٹی تو آن کی آن میں پوری فراک شعلے سے بھرگئی وہ چلّاتی ہوئی دوڑی اور جب تک ہم سب باہر آئے پوری فراک راکھ ہوچکی تھی اور اس کے بدن کا ستّرفی صد سے زائد حصہ جھلس چکا تھا۔
اس حالت میں بھی اسے اس بات کا احساس ہے کہ چچا چچی ناراض تو نہیں اور جب اسے اطمینان ہوجاتا ہے تو وہ بے حد پُرسکون ہوجاتی ہے۔ اچانک وہ انگڑائی لے کر پورے بدن کو کھینچتی ہے۔ ڈاکٹرتیواری فوراً آتے ہیں۔ لائف سیونگ ڈرگس دیے جاتے ہیں، دھیرے دھیرے وہ بے حد پُرسکون ہوجاتی ہے۔ ڈاکٹر بے بسی سے میری جانب دیکھ کر نگاہیں جھکالیتے ہیں۔ بیگم کی بے ساختہ سسکی پھوٹ پڑتی ہے اور میں بیگم کی چُنری کا دوپٹہ لے کر شمائلہ کو سرسے پاؤں تک ڈھانپ دیتا ہوں۔