شہر نگاراں میں پھرتے ہیں ہم آوارہ رات ڈھلے

شہر نگاراں میں پھرتے ہیں ہم آوارہ رات ڈھلے
شاید کوئی دریچہ وا ہو شاید کوئی دیپ جلے


کوئی غم آگیں نغمہ چھیڑے کوئی میرؔ کے شعر پڑھے
کم کم درد کی کلیاں مہکیں پل پل غم کی رات ڈھلے


ویراں ویراں دل کی بستی سونی سونی راہ وفا
ایسے کٹھن رستے پہ کوئی دو چار قدم تو ساتھ چلے


چاک ہر اک گل کا دامن اور آوارہ ہر موج صبا
جیسے مجھ سے مل نہ سکا ہو کوئی بچھڑتے وقت گلے


ختم ہوا ہے عشقیؔ تم پر سلسلۂ وحشت زدگاں
شاید کوئی شخص تمہارے بعد وفا کا نام نہ لے