شہر غزل میں بکنے کو تیار کون ہے

شہر غزل میں بکنے کو تیار کون ہے
یوسف نہیں تو زینت بازار کون ہے


سب کے لبوں پہ نعرۂ منصور ہے مگر
یہ دیکھنا ہے آج سر دار کون ہے


اپنا ضمیر جھوٹ کبھی بولتا نہیں
تم ہی کہو کہ صاحب کردار کون ہے


ترک تعلقات کو اک عمر ہو گئی
تنہائیوں میں مائل گفتار کون ہے


تصویریں روز بنتی ہیں شعروں کی شکل میں
میرے تصورات کا شہکار کون ہے


جلنے کو شمع بھی جلی پروانہ بھی جلا
کیسے کہیں کہ کس کا وفادار کون ہے


ہم لوگ خانقاہوں میں جائیں گے کس طرح
سب پارسا ہیں ہم سا گنہ گار کون ہے


اشکوں کے پھول لے کے میں نکلا تو ہوں رئیسؔ
یہ دیکھنا ہے ان کا خریدار کون ہے