نشاط منزل قلب و نظر کو یاد کرو
نشاط منزل قلب و نظر کو یاد کرو
سفر میں اپنے کسی ہم سفر کو یاد کرو
بڑے خلوص سے تاریک راستوں پہ چلو
بڑے تپاک سے حسن سحر کو یاد کرو
جلے چراغ تو چپکے سے نام لو میرا
ملے خوشی تو مری چشم تر کو یاد کرو
جو دل میں رہ کے بھی انجان سی رہی برسوں
کسی کی اس نگہہ فتنہ گر کو یاد کرو
دل حزیں کا تقاضہ ہے جادۂ غم میں
نظر کے ساتھ فریب نظر کو یاد کرو
قدم قدم پہ جہاں زندگی نکھرتی تھی
کسی کے پیار کی اس رہ گزر کو یاد کرو
ہے جس کے فیض سے اب تک بھی روشنی گھر میں
رئیسؔ اب بھی اسی چشم تر کو یاد کرو