شگفتہ آج کچھ دل کی کلی معلوم ہوتی ہے

شگفتہ آج کچھ دل کی کلی معلوم ہوتی ہے
بہار خندۂ گل زندگی معلوم ہوتی ہے


وہ میرے دل کی کہتے ہیں میں ان کے دل کی کہتا ہوں
محبت اتفاق باہمی معلوم ہوتی ہے


مکر جائیں وہ وعدہ سے مجھے باور نہیں آتا
خلاف شان خو یہ حسن کی معلوم ہوتی ہے


وہی دن ہیں وہی راتیں وہی ہم ہے وہی باتیں
مگر پھر بھی کسی شے کی کمی معلوم ہوتی ہے


نسیم آئی بہار آئی پیام جاں فزا لائی
خیالیؔ زندگی اب زندگی معلوم ہوتی ہے