شبدوں کی مدھیرا سے بھگو کر تری چولی

شبدوں کی مدھیرا سے بھگو کر تری چولی
کھیلی ہے سہیلی ترے سنجوگ میں ہولی


در آئے دراڑوں کبھی دیواروں سے پالا
برسات میں ٹپکے ہے مرا گھر مری کھولی


خوشبو کو اٹھا کر رکھا دامان دعا میں
سورج کی کرن روح کے پردے میں پرو لی


طوطے نے کہا کون تھا دریا پہ بتا دے
موئی ہے کہاں جا کے تو مینا مجھے بولی


اس آس کا اس پیاس کا دارو نہیں کوئی
دیا ری کنہیا سے کہو لائے نہ ڈولی


تو بھینسیں چرائے کہ کہیں تخت سہائے
یہ آن جند جان ترے نام پہ گھولی


صحرا میں ملا خاک کا ادراک بدن پر
کہسار پہ تا‌‌ ماس کی بو باس سے دھو لی


سو بار لٹا چینا بہے بن ترے نینا
اشکوں سے بھری دیکھی ہے سو بار یہ جھولی


رگ‌‌ وید میں اشلوک ہیں یا لوک سنائیں
بادل گھرے موسم پھرے پستک جہاں پھولی


مقتل سے گزر کر جو بڑھے شاخ سناں تک
یہ زیست تجھے دیکھ کے اس راہ پہ ہو لی