Nasir Shahzad

ناصر شہزاد

ناصر شہزاد کے تمام مواد

44 غزل (Ghazal)

    ربط بھی توڑا بنی نت کی طلب کا بیس بھی

    ربط بھی توڑا بنی نت کی طلب کا بیس بھی پتر بھی اس نے لکھے بھیجے مجھے سندیس بھی چوکھٹا دل کا یہاں ہے ہو بہو تجھ سا کوئی ہونٹ بھی آنکھیں بھی چھب ڈھب بھی تجھی سا فیس بھی زیست کے پتھ پر نہیں ہونا تھا تجھ مجھ میں ملاپ ہر جنم میں پریت نے دیکھے بدل کر بھیس بھی پوت کی ساڑی گلابی آفتابی ...

    مزید پڑھیے

    لفظوں کی سنگلاخ سلوں میں سمو دیا

    لفظوں کی سنگلاخ سلوں میں سمو دیا یاروں نے فن کے پھول کو پتھر میں بو دیا میری حقیقتوں پہ نہ تو ہنس کہ تجھ کو بھی جدت کے شوق نے سر ساحل ڈبو دیا ڈستی ہے اب بھی دل کو کسی کی ٹھٹھکتی چاپ اک آب جو پہ جلتا ہے جب شام کو دیا کیسا خیال ہے یہ کہاں کی ہے طرز فکر آیا تو وہ لجا گیا بچھڑا تو رو ...

    مزید پڑھیے

    نین نشے کی چڑھتی نمو پر

    نین نشے کی چڑھتی نمو پر باقی بدن سب جام و سبو پر چڑیاں مور ممولے وادی ہم تم ایک کنار جو پر لکھی گئی تاریخ ہماری کوفے تیرے کاخ و کو پر ہم نے اپنی کویتا گوندھی مٹی کی سوندھی خوشبو پر کربل حرب، ہراول، حملہ کربل آخری ضرب عدو پر

    مزید پڑھیے

    پران پریتم پہ وار کر دیکھو

    پران پریتم پہ وار کر دیکھو سر سے گٹھری اتار کر دیکھو وہ یم ذات ہو کہ رود فرات کوئی دریا تو پار کر دیکھو پوس کی اوس سے بدن دھو کر ماس کو مشک بار کر دیکھو مشک تھا مو بریدہ ہاتھوں سے سر کو کاندھوں پہ بار کر دیکھو سنو جنگل میں پنچھیوں کی صدا بہتے دریا سے پیار کر دیکھو اوڑھ کر تن پہ ...

    مزید پڑھیے

    حسرت عہد وفا باقی ہے

    حسرت عہد وفا باقی ہے تیری آنکھوں میں حیا باقی ہے بات میں کہنہ روایات کا لطف ہاتھ پر رنگ حنا باقی ہے ابھی حاصل نہیں ظالم کو دوام ابھی دنیا میں خدا باقی ہے بجھ گیا گر کے خنک آب میں چاند سطح دریا پہ صدا باقی ہے گوپیاں ہی کسی گوکل میں نہیں بنسیوں میں تو نوا باقی ہے پاؤں کے نیچے ...

    مزید پڑھیے

تمام