شب کو دلیا دلا کرے کوئی

شب کو دلیا دلا کرے کوئی
صبح کو ناشتہ کرے کوئی


اس کا بھی فیصلہ کرے کوئی
کس سے کتنی حیا کرے کوئی


آدمی سے سلوک دنیا کا
جیسے انڈا تلا کرے کوئی


چیز ملتی ہے صرف کی حد تک
اپنا چمچہ بڑا کرے کوئی


بات وہ جو کہو سر دربار
عشق جو برملا کرے کوئی


سوچتا ہوں کہ اس زمانے میں
دادی اماں کو کیا کرے کوئی


جس سے گھر ہی چلے نہ ملک چلے
ایسی تعلیم کیا کرے کوئی


دل بھی اک شہر ہے یہاں بھی کبھی
اومنی بس چلا کرے کوئی


ایسی قسمت کہاں ضمیرؔ اپنی
آ کے پیچھے سے ''تا'' کرے کوئی