شب وصال میں دل پر قلق ابھی سے ہے

شب وصال میں دل پر قلق ابھی سے ہے
سحر ہے دور مرا رنگ فق ابھی سے ہے


ہنوز دفن ہوا ہی نہیں ترا بسمل
کہ زلزلے میں زمیں کا طبق ابھی سے ہے


میں لکھ چکا ہی نہیں حال دل کہ اس کی طرف
ہوائے شوق میں اڑتا ورق ابھی سے ہے


چلا نہیں وہ ارادہ ہی سیر ماہ کا ہے
پہ نازکی سے جبیں پر عرق ابھی سے ہے


کسی نے شام کے آنے کو کیا کہا عشرتؔ
کہ منہ پہ آپ کے پھولی شفق ابھی سے ہے