شام غم آنکھوں سے آنسو آستیں پر گر پڑے

شام غم آنکھوں سے آنسو آستیں پر گر پڑے
یا کہ تھے دامن میں کچھ موتی زمیں پر گر پڑے


پی کے ہم بیرون مے خانہ زمیں پر گر پڑے
ہم کو گرنا تھا کہیں اور ہم کہیں پر گر پڑے


سوئے منزل تیز گامی تھی کہ تھا وحشت کا جوش
کیا خبر ہم کب بڑھے اور کب زمیں پر گر پڑے


کوئی کیا جانے کہ یہ حسن خرد ہے یا خرد
ان کا سنگ در سمجھ کر ہم زمیں پر گر پڑے


آشیاں تک بھی نہ پہنچنے تھے قفس سے چھٹ کے ہم
گر پڑے حسرتؔ کہیں بازو کہیں پر گر پڑے