کر گیا گوشہ نشینوں پہ یہ احساں کوئی

کر گیا گوشہ نشینوں پہ یہ احساں کوئی
دے گیا مشغلہ چاک گریباں کوئی


ہے یہی شوق کی پستی و بلندی کا مزاج
فرش کی گرد کوئی عرش کا مہماں کوئی


ضعف و ہمت کے کرشمے ہیں چہ ممکن چہ محال
کام مشکل ہے کوئی اور نہ آساں کوئی


آج وہ دن ہے کہ روشن ہے شبستان خیال
روک دے بڑھ کے ذرا گردش دوراں کوئی


زلف و کاکل کا فسانہ ہو کسی طرح دراز
اس خم و پیچ میں ہے سلسلہ جنباں کوئی


اور بھی زخم ہیں اے چاک گریبان جنوں
تو ہنسے یا نہ ہنسے ہوگا نمایاں کوئی


ایسے صحرا میں جہاں نخل کا سایہ بھی نہ تھا
بڑھ گیا چھوڑ کے تنہا ہمیں احساںؔ کوئی