سرد ہوا ہے نوحہ گر رات بہت گزر گئی
سرد ہوا ہے نوحہ گر رات بہت گزر گئی
غور سے دیکھ چشم تر رات بہت گزر گئی
نیند میں گم ہیں دشت و باغ بجھ گئے شہر کے چراغ
ایسے میں جاؤں میں کدھر رات بہت گزر گئی
اب تو سمٹ رہے ہیں سائے لوٹ کے وہ جواں نہ آئے
دل میں عجیب سا ہے ڈر رات بہت گزر گئی
گونج رہی ہے دور تک اپنے ہی قدموں کی صدا
سونی پڑی ہے رہ گزر رات بہت گزر گئی
جشن طرب ہوا تمام کشتہ چراغ و ساز و جام
بکھرے پڑے ہیں فرش پر رات بہت گزر گئی
محفل دوستاں سے کب اٹھنے کو چاہتا ہے دل
سوچ رہا ہوں جاؤں گھر رات بہت گزر گئی
جاگا نہ ایک شخص بھی میری نوائے درد سے
نالے گئے ہیں بے اثر رات بہت گزر گئی
دل میں مرے اتر گئی صحن مکاں کی تیرگی
بجھ گئی شمع طاق پر رات بہت گزر گئی
خوف کے سائے چار سو اے مرے یار ماہ رو
آج یہیں قیام کر رات بہت گزر گئی
سو گئے گھر کے سب مکیں پر مرے انتظار میں
جاگ رہے ہیں بام و در رات بہت گزر گئی
گھر کی منڈیر سے گئی چاند کی زرد روشنی
دور نہیں ہے اب سحر رات بہت گزر گئی