سنبھل نہ پائے تو تقصیر واقعی بھی نہیں

سنبھل نہ پائے تو تقصیر واقعی بھی نہیں
ہر اک پہ سہل کچھ آداب میکشی بھی نہیں


ادھر ادھر سے حدیث غم جہاں کہہ کر
تری ہی بات کی اور تیری بات کی بھی نہیں


وفائے وعدہ پہ دل نکتہ چیں ہے وہ خاموش
حدیث مہر و وفا آج گفتنی بھی نہیں


بکھر کے حسن جہاں کا نظام کیا ہوگا
یہ برہمی تری زلفوں کی برہمی بھی نہیں


شکست ساغر و مینا کو خاک روتا میں
گراں ابھی مرے دل کی شکستگی بھی نہیں


ہزار شکر کہ بے خواب ہے سحر کے لیے
وہ چشم ناز کہ جو جاگتوں میں تھی بھی نہیں


یہ زندگی ہی تلون مزاج ہے اے دوست
تمام ترک وفا تیری بے رخی بھی نہیں


تعلقات زمانہ کی اک کڑی کے سوا
کچھ اور یہ ترا پیمان دوستی بھی نہیں


کرم کی وجہ نہ تھی بے سبب خفا بھی ہے وہ
مزاج حسن سے یہ بات دور تھی بھی نہیں