سمجھ رہا ہے تری ہر خطا کا حامی مجھے

سمجھ رہا ہے تری ہر خطا کا حامی مجھے
دکھا رہا ہے یہ آئینہ میری خامی مجھے


زماں کی قید ہے کوئی نہ ہے مکاں کی خبر
کہاں کہاں لیے پھرتی ہے تشنہ کامی مجھے


نہیں کہ جرأت اظہار عشق مجھ میں نہیں
تباہ کر کے رہی میری نیک نامی مجھے


کوئی نہیں مرا سامع اسی میں خوش ہوں میں
کہ راس آئی بہت میری خود کلامی مجھے


مزہ ملا نہ کبھی منزل آشنائی کا
کچھ ایسا کر گئی آوارہ تیز گامی مجھے


حسین چہروں کو تیوری کے بل بگاڑتے ہیں
گراں گزرتی ہے فطرت کی بد نظامی مجھے


شراب تند کی تلخی کا ذائقہ جیسے
پسند آئی حسینوں کی بد کلامی مجھے


نشاط تکیۂ زانو سے سر اٹھانے تک
ستارہ صبح کا دیتا رہا سلامی مجھے


میں فرش راہ یوں ہی تو نہیں ہوا آزرؔ
نڈھال کر کے رہی اس کی خوش خرامی مجھے