سیلانی روح
میں تھرکتی ہوں سارنگیوں کی نئی جاودانی دھنوں پر
مرے بابلا
تیری دھرتی ترا یہ محلہ کشادہ رہے
تیرے سیار کی ساری گلیوں میں رونق رہے
تیرے کھلیان میں سبز خوشبو رہے
تیرے اشجار پر نو شگفتہ گلوں کی بجے بانسری
تو پرندوں کی چہکار سے گیت بنتا رہے
بارشوں کے ترنم جو منسوخ ہوں تو
ترے دشت ذروں سے دریا بنیں
میں تو صد گفتنی حسن کو دیکھ کر ہی تھرکتی رہی
تیری بین السطوری دھنوں پر
زمیں آسماں کے جو مابین ہیں
جو خلاؤں کے عقدے زمینی بشر کھولتے ہیں
اسی فہم کی پھیلتی وادیاں دیکھ کر
من کے تالاب میں روز کھلتی ہوئی خواہشوں کے کنول دیکھ کر
بے کنارہ کھلی سمت سے
پنچھیوں کی اڑانوں کے
لمبی مسافت بھرے قافلے دیکھ کر
میں تھرکتی رہی
میں خدا کی ظہوری دھنوں پر تھرکتی رہی
جو کھلے پانیوں کو
خفی ساحلوں سے مقفل کرے
جو فلک بوس پربت کو اسم توازن سے قائم کرے
کھول دے دشت پر ابر کے جو خزانے
جو کالے پہاڑوں سے جھرنے نکالے
زمیں پر فلک سے پرندے اتارے
محبت کی ان ندیوں کے کنارے تھرکتی رہی
جھیل رتی گلی کا کھلا بانکپن ہو
یا کیلاش کی رقص کرتی ہوئی دیویوں کے سہانے بدن
میں تھرکتی رہی
نخل نور و ثمر کی یہ جلوہ گری دیکھ کر
مشک پوری دھنوں پر تھرکتی رہی