ریل چلنے لگی

سرنگوں سبز جھنڈی کا ہلکا پھریرا فضاؤں میں لہرا گیا
بنچ پر اوس میں بھیگے پتوں کی چادر کو جھونکے اڑا لے گئے
ریل کی پٹریوں پر اداسی کی گونجیں بدن کی سرنگوں سے یک لخت باہر نکلنے لگیں
وسل بجنے لگی
ریل چلنے لگی
دل گرفتہ مسافر کئی منزلوں کی اذیت کے پیکر میں ڈھلنے لگے
ایک ماں نے دعاؤں سے لبریز بوسوں بھری تھالیوں کو
کسی جنگ پر گامزن اپنے بیٹے کی جھولی میں الٹا دیا
ایک عورت کی چھاتی پہ
صدیوں کی ٹھہری ہوئی اک اداسی کے بے جان پہیے گزرنے لگے
دو برس کے فرشتے کے آنسو گرے
وسل بجنے لگی
خوش نما زندگی کے دوپٹے جواں عورتوں کے سروں سے ڈھلکنے لگے
بے ردا ایک لڑکی نے خاکستری بیگ پکڑے ہوئے
دور کھیتوں میں خاموش لوگوں کو رخصت کیا
اک نئی موج پھر سے دریدہ بدن میں ابھرنے لگی
ایک روزن سے دوہری ہواؤں کے جھونکے گزرنے لگے
بھیڑ کی بے خیالی بھری ریل میں پھر ابلنے لگی
ایک ٹھنڈی اداسی اسی بنچ پر پھر اترنے لگی
وسل بجنے لگی
ریل چلنے لگی