صحرا و شہر سب سے آزاد ہو رہا ہوں
صحرا و شہر سب سے آزاد ہو رہا ہوں
اپنے کہے کنارے آباد ہو رہا ہوں
یا حسن بڑھ گیا ہے حد سے زیادہ اس کا
یا میں ہی اپنے فن میں استاد ہو رہا ہوں
اس بار دل کے رستے حملہ کرے گی دنیا
سرحد بنا رہا ہوں فولاد ہو رہا ہوں
چالاک کم نہیں ہے محبوب ہے جو میرا
میں بھی سنبھل سنبھل کر فرہاد ہو رہا ہوں
روح و بدن برابر لفظوں میں ڈھل رہے ہیں
اک تجربے سے میں بھی ایجاد ہو رہا ہوں
تھوڑا بہت مجھے بھی سننے لگی ہے دنیا
تیری زباں سے شاید ارشاد ہو رہا ہوں