سحر سے ایک کرن کی فقط طلب تھی مجھے
سحر سے ایک کرن کی فقط طلب تھی مجھے
تمام رات مگر بیکلی غضب تھی مجھے
کنار شام پہ سرخی شفق کی دوڑ گئی
لہو اگلنے کی یوں آرزو بھی کب تھی مجھے
پتے کی اک نہ کہی صبح کے اجالوں میں
یہ اور بات کہ ازبر حدیث شب تھی مجھے
میں تیری روح کی پہنائی میں اتر نہ سکا
کہ تجھ سے صرف تمنائے لب بہ لب تھی مجھے
میں خود ہی بزم بھی اور خود ہی بزم آرا بھی
کہ ناگوار ہر اک محفل طرب تھی مجھے
میں اپنے وقت کا سقراط تو نہیں لیکن
جہاں پہ بات چھڑی پھر وہیں پہ شب تھی مجھے
میں اپنی ذات کے اندر کبھی نہ جھانک سکا
یہ اور بات کہ یہ آرزو بھی کب تھی مجھے
فصیل شب سے کوئی اب پکارتا ہے تو کیا
ملا نہ ایک بھی اس دن تلاش جب تھی مجھے
شکایت شب ہجراں کبھی نہ کی محسنؔ
حکایت غم دل ورنہ یاد سب تھی مجھے