سحر کو رات کے تاروں کی بات کرتی ہوں
سحر کو رات کے تاروں کی بات کرتی ہوں
نہیں ہیں ایسے نظاروں کی بات کرتی ہوں
مزاج خاک اڑانے پہ بھی نہیں بدلا
خزاں کا دور بہاروں کی بات کرتی ہوں
اگر نہ بار گراں ہو تو بیٹھ کر سنیے
کہ میں نصیب کے ماروں کی بات کرتی ہوں
جگر کے زخم ستانے لگے جو شام فراق
تو آج ان کے اشاروں کی بات کرتی ہوں
یہ کیا بلا ہیں تمہیں کیا خبر ہے کیا جانو
میں آج دل کے شراروں کی بات کرتی ہوں
چمن کا ذکر کجا داستان گل کیسی
زمیں پہ رہ کے ستاروں کی بات کرتی ہوں
مآل کار ہوں بھولی ہوئی طربؔ اب بھی
بھنور میں پھنس کے کناروں کی بات کرتی ہوں