سحر کو دے کے نئی نکہت حیات گئی

سحر کو دے کے نئی نکہت حیات گئی
نہ جانے کس کی گلی سے نکل کے رات گئی


جنوں نے دولت دل کو نثار کر ڈالا
پکارتی ہی رہی عقل کائنات گئی


شب فراق کا اتنا بھی غم نہ کر اے دل
سوئے سحر ہی گئی آج تک جو رات گئی


پڑے ہیں راہ میں کچھ پھول خاک آلودہ
کوئی جنازہ اٹھا یا کوئی برات گئی


شمیمؔ عہد گزشتہ کی گفتگو نہ کرو
وہ دن گئے وہ محبت گئی وہ بات گئی