سحر کو بھی مری محفل میں برہمی نہ ہوئی

سحر کو بھی مری محفل میں برہمی نہ ہوئی
تمام رات ہوئی درد میں کمی نہ ہوئی


غرور حسن تمنائے دل کا دشمن تھا
وہ کون دن تھا کہ جس دن ہماہمی نہ ہوئی


امنڈ رہی ہے مرے دل کے ساتھ برسوں سے
یہ کوئی نہر ہوئی آنکھ کی نمی نہ ہوئی


میں اپنے قتل کا شاکی نہیں ہوا تو ہوا
یہ رنج ہے کہ ترے ظلم میں کمی نہ ہوئی


لحد پہ آنے کی انداز سیکڑوں تھے مگر
خوش آئی وضع انہیں وہ جو ماتمی نہ ہوئی


الٹ الٹ گئے دل میرے انتقال کے بعد
یہ کیا کہ آپ کی زلفوں میں برہمی نہ ہوئی


ہزاروں اٹھ گئے آغوش دہر سے لیکن
عجیب گھر ہے زمانہ جہاں غمی نہ ہوئی


یہ جسم روح بہی خواہ کا رہا دشمن
تمام عمر کبھی صلح باہمی نہ ہوئی


ہر ایک کے لئے کھینچا روا نہیں ثاقبؔ
بھوؤں کا حسن ہی کیا ہے اگر خمی نہ ہوئی