تیز مجھ پر جو ستم گر کی چھری ہوتی ہے

تیز مجھ پر جو ستم گر کی چھری ہوتی ہے
کیجیے کیا کہ لگی دل کی بری ہوتی ہے


منع کرتا ہے تڑپنے سے قفس میں صیاد
نالے کرتا ہوں تو گردن پہ چھری ہوتی ہے


ہر بدی کرتی ہے انسان کو دنیا میں ہلاک
سم قاتل ہے وہ عادت جو بری ہوتی ہے


اہل دل عشق میں دم مار سکیں کیا ممکن
رگ جاں کے لئے ہر سانس چھری ہوتی ہے


بیٹھ کیوں بادہ کشوں میں کہ ہوں گم ہوش و حواس
صحبت اہل خرابات بری ہوتی ہے