سفر رائیگاں
یہ پگڈنڈی
چلتے چلتے جنگل میں سے پھرتی پھراتی دور ہیں
گھنے گھنے پیڑوں میں چھپے
اک مندر تک لے جاتی ہے
بہت پرانی کائی زدہ سی سیڑھی چڑھ کر
مندر میں جب داخل ہوں تو
فرش کے اوپر بکھرے ہوئے
کچھ پیلے پتے ملتے ہیں
یا کہیں کہیں پہ جلتی جلتی آنکھوں والے سانپ دکھائی دیتے ہیں
دیواروں پر نقش پرانے مدھم مدھم
بہت پرانے قصے لے کر جاگ رہے ہیں
جن سے کچھ انجانی سی خوشبوئیں لپٹی
ہانپ رہی ہیں
بیچ میں اک استھان کے اوپر
پیاری سی اک مورت ہے
جو جنم جنم سے سوچوں کے پاتال میں ڈوبی
جاگ رہی ہے
کبھی کبھی اک چھن چھن چھن چھن
ہوا میں تیرتی جاتی ہے
اور ہولے ہولے سسکی بن کر
بکھر بکھر سی جاتی ہے
پھر گہری چپ میں کونے سے
چمگادڑ کوئی اڑتی ہے
تو چپ کی چیخیں
مندر کی ہر مورت کو دہلاتی ہیں
جانے کب سے ایسا ہوتا آیا ہے
یہ گونگا مندر پگڈنڈی کو
خالی خالی آنکھوں سے
یوں ہی دیکھتا رہتا ہے
اور پگڈنڈی اس گہری چپ سے
تنگ سی آ کر
الٹے قدموں جنگ میں سے پھرتی پھراتی
واپس شہر کو جاتی ہے
اور کولتار کی سڑکوں میں کھو جاتی ہے