سفر میں فاصلوں کے ساتھ بادبان کھو دیا
سفر میں فاصلوں کے ساتھ بادبان کھو دیا
اتر کے پانیوں میں ہم نے آسمان کھو دیا
یہی کہ ان نفس غبار ساعتوں کے درمیاں
ہوا نے گیت رہگزر نے ساربان کھو دیا
یہ کون ساونوں میں خواب دیکھتا ہے دھوپ کے
یہ کس نے اعتبار غم پس گمان کھو دیا
بس ایک حرف کا گداز اس پہ قرض تھا سو وہ
بچھڑتے وقت خامشی کے درمیان کھو دیا
فراق منزلوں کا اک غبار تھا کہ جس گھڑی
چراغ شب نے اور دل نے میہمان کھو دیا
رتوں میں ایک رت یہاں شجر بھی کاٹنے کی تھی
پتہ چلا جب اپنے گھر کا پاسبان کھو دیا
بچا لیا تھا خواب جو مسافتوں کی دھوپ سے
وہ ابر و باد منظروں کے درمیان کھو دیا
وہ نیند اپنے بچپنے کی راہ میں اجڑ گئی
اس آنکھ نے بھی معجزوں کا اک جہان کھو دیا