سفر کے تجربوں میں گرد پا بھی آ ہی جاتی ہے
سفر کے تجربوں میں گرد پا بھی آ ہی جاتی ہے
مگر اس پیچ و خم سے کچھ جلا بھی آ ہی جاتی ہے
جو چلتا ہوں فلک سے خوں کے فوارے برستے ہیں
جو رکتا ہوں سموم فتنہ زا بھی آ ہی جاتی ہے
خرد کی سانس بھی رک جاتی ہے تیرہ خیالی سے
تہہ احساس نادیدہ بلا بھی آ ہی جاتی ہے
جو پودے صحن میں کھلتے ہیں ان کو دھوپ لگتی ہے
درختوں سے تر و تازہ ہوا بھی آ ہی جاتی ہے
ہرے رہ جائیں گے جاں دار پتے زرد موسم میں
خزاں بختی میں جینے کی ادا بھی آ ہی جاتی ہے
انہیں سے قریۂ جاں میں وفور درد ہوتا ہے
انہیں نظروں میں تاثیر شفا بھی آ ہی جاتی ہے