صدا ز فیض اثر خامشی نہ بن جائے

صدا ز فیض اثر خامشی نہ بن جائے
جو بات کہہ نہ سکوں آپ ہی نہ بن جائے


کس انتظار میں ہے گھر کا بند دروازہ
ہوا بھی سایۂ زنجیر ہی نہ بن جائے


وہ گھٹ کے مر ہی نہ جائے جو میرے اندر ہے
مرا وجود ہی میری نفی نہ بن جائے


تری وفا مری نس نس میں زہر بھر دے گی
یہ دوستی بھی تری دشمنی نہ بن جائے


تمہارے ماتھے پہ ابھری ہے جو شکن کی طرح
یہی لکیر بھٹک کر ہنسی نہ بن جائے


اٹھاؤں نظم کا گھونگھٹ تو سامنے تم ہو
غزل کہوں تو تمہاری چھبی نہ بن جائے