صدائے جرس
خلیل میرا دوست تھا۔ ہماری محبت کالج بھر میں ضرب المثل تھی۔ ہم دونوں تاریخ قدیم سے گہری دلچسپی رکھتے تھے۔ جہاں کیںر اخبارات یا رسائل میں کسی قدیم تہذیب کے متعلق کوئی لٹریچر شائع ہوتا۔ یا پرانے معبدوں اور مقبروں کی کھدائی کا ذکر ہوتا تو ہماری آتشِ شوق بھڑک اٹھتی۔ یہی شوق ہماری محبت و یکجائی کی اہم ترین وجہ تھا۔
تاریخ عالم میں تاریخ مصرکا باب خصوصاً ہماری توجہات کا مرکز تھا۔ ہم اکثر اوقات قدیم مصریوں کی روحانی طاقت اور دیگر کمالات پر بحث کیا کرتے۔ جب ہم فراعنہ مصرکی عجیب وغیب شخصیتوں اور ان کی آہنی حکومتوں پر تبادلۂ خیال کرتے تو تصور ہمیں ہزارہا سال کی گزشتہ دنیا میں لے جاتا۔ اور کئی کئی گھنٹے ہم انہی خواب و خیال کی دنیا میں غرق رہتے۔ چنانچہ تعلیم کا زمانہ ہم نے اسی ضبط میں بسر کیا۔ لیکن تعلیم کے خاتمہ پر ہمارا یہ شوق ادھورا رہ گیا۔ دنیا کے جھمیلوں نے ہمیں ایک دوسرے سے علیحدہ کردیا۔ وہ فوج میں ملازم ہوا اور مجھے اپنی زمینداری سنبھالنا پڑی۔ ہم دونوں دس سال تک جدا رہے۔اسی عرصہ میں میری شادی نسیمہ سے ہوگئی۔ نسیمہ کے نور پاش حسن اور معصوم محبت نے مجھے ایسا محو کیا کہ میں نے اپنے سب مشاغل ترک کرکے اپنی زندگی کو محبت کی جولانیوں کے سپرد کردیا۔
خلیل ابھی تک مجرد تھا۔ وہ اس وقت تک تقریباً آدھی دنیا کا چکر لگاچکا تھا اس کے خطوط اکثر آیا کرتے تھے جن میں وہی پہلا سا خلوص بھرا ہوتا۔ پورے دس سال کے بعد مجھے اس کا ایک ایسا خط ملا جس نے میرے پرانے شوق کو ازسرنو تازہ کرکے میرے دل میں جستجو کی ہل چل ڈال دی۔
خط کا مضمون مختصر تھا۔ یعنی وہ ملازمت سے سبکدوش ہوکر کلکتہ میں سکونت پذیر ہے۔ اور مصرکے ایک پرانے مقبرے سے عجائبات کا ایک بہت بڑا خزانہ ساتھ لایا ہے۔ اس نے مجھے دعوت دی تھی کہ میں کلکتہ جاکر ان نادر اور عجوبۂ روزگار اشیا کا معائنہ کروں۔ اس کے خط سے پھر ایک بار میری آتش شوق بھڑک اٹھی۔ دبے ہوئے جذبات دوبارہ ابھرنے لگے۔ اور دوسرے دن میں بمع نسیمہ کے کلکتہ روانہ ہوگیا۔
خلیل کا وسیع بنگلہ شہر سے چند میل پرے دریائے ہگلی کے کنارے واقع تھا۔ جس پر ناریل اور زیتون کے درختوں نے اپنا تاریک سایہ ڈال رکھا تھا ۔ شام قریب تھی۔ تاجدار مشرق ایوان مغرب میں داخل ہونے والا تھا۔ ہوا بالکل ساکن تھی افق پر خاکستری رنگ کے بادل طوفان کی آمد کا اعلان کر رہے تھے۔ فضا نہایت اداس اور غبار آلود تھی ۔ بنگلے میں بالکل سناٹا تھا۔ مجھے حیرت ہوئی کہ وہ اس ویرانے میں کیونکر رہتا ہے۔ بنگلے میں کوئی ملازم بھی دکھائی نہ دیتا تھا۔ چاروں طرف اجاڑ بیابان نہ آدم نہ آدم زاد۔
ناچار میں بنگلے کا طواف کرنے لگا۔ سب دروازے اندر سے بند تھے۔ میں نے آوازیں دیں۔ دروازے کھٹکھٹائے مگر بے سود۔ اِس ناگوار سکوت سے نسیمہ بہت بددل ہوئی اور واپس چلنے پر اصرار کرنے لگی۔
ہم لوگ مایوس ہوکر واپس جانے ہی کو تھے کہ سب سے اوپر والی منزل کی کھڑکی کھلی مگر فوراً ہی بند ہوگئی۔ تھوڑی دیر بعد مقابل والا دروازہ کھلا اور ایک شخص نمودار ہوا ۔ یہ ایک ادھیڑ عمر کا پتلا دبلا مدقوق سا شخص تھا۔ اس کے زرد اور بے رونق چہرے پر وحشت برس رہی تھی۔ اس کی پھیکی اور بے رس آنکھیں تیزی سے حلقوں میں گردش کر رہی تھیں۔ اس کے کھردرے اور بدرنگ بالوں پر خشکی کی وجہ سے گرد جمی ہوئی معلوم ہوتی تھی ۔ اس شخص کو دیکھ کر نسیمہ بہت گھبرائی۔
میں نے حوصلہ کرکے اس سے خلیل کی بابت پوچھا۔ مگر اس نے جواب دینے کے عوض نفرت سے ہونٹوں کو سکیڑتے ہوئے دروازہ کھولا اور نہایت بے اعتنائی سے ہمیں ڈراینگ روم میں بٹھاکر خود چپ چاپ اوپر والی منزل میں چلا گیا۔
اس کمرے میں قدیم صنعت کی کئی عجیب و غریب اشیا موجود تھیں۔ لیکن ان میں دو چیزیں نہایت ہی ہولناک تھیں۔ ایک تو سنگ جراحت کا ایک خوبصورت پیالہ تھا۔ جس کی تہہ میں خون کی طرح کوئی سرخ چیز جمی ہوئی تھی اور دوسری پتھر کی ایک چھری تھی جو آدھی سےزیادہ خون آلود تھی۔ نسیمہ ان چیزوں کو دیکھ کر لرزنے لگی۔
میں بھی ان چیزوں کی دیکھ بارل کر رہا تھا کہ کار کا ہارن سنائی دیا اور چند منٹ بعد خلیل کمرے میں داخل ہوا۔ وہ اسی طرح خوبصورت اور جوان تھا۔ اس کی وجاہت اور شکل و صورت پر وقت نے بالکل اثر نہ کیا تھا۔ وہ اندر داخل ہوتے ہی مجھ سے لپٹ گیا ۔ ایک دوسرے کی مزاج پرسی کے بعد میں نے پوچھا۔ ’’خلیل! یہ بھوت کی قسم کا آدمی دوسری منزل میں کون ہے۔‘‘ اس نے ہنستے ہوئے کہا ’’اور تمہارا اشارہ شاید اس وحشی نوکر کی طرف ہے جو آج بدقسمتی سے گھر پر اکیلا تھا۔ کیونکہ میرے تمام ملازم آج شہر میں میلہ دیکھنے گئے ہوئے تھے۔ اس نے ضرور تمہیں ستایا ہوگا۔‘‘
اس کے بعد ادھر ادھر کی باتیں ہوتی رہیں۔ وہ نسیمہ کو دیکھ کر بہت خوش تھا۔ اسی عرصے میں خلیل کے حکم سے ہمارے لیے دو کمرے تیار ہوگئے۔ جہاں ہم نےآرام کیا۔ میری آنکھ کھلی تو شام کافی گہری ہوچکی تھی۔ خلیل کمرے میں موجود تھا وہیں ہم نے کھانا کھایا اس کے بعد وہ دیر تک غیر ممالک کے حالات بیان کرتا رہا، حتی کہ رات کے بارہ بج گئے ۔ ملازمین ایک عرصہ سے اپنی ڈیوٹی ختم کرکے گہری نیند سوچکے تھے۔ تمام دنیا خاموش تھی۔ گرم اور تاریک رات کے اندھیرے سایوں میں لمبے لمبے ناریل کے درخت جہنمی روحوں کی طرح مایوسی سے سمٹے سمٹائے کھڑے تھے۔ ہر طرف موت کا سا سکوت تھا ۔ میں نے خلیل سے آرام کرنے کو کہا وہ کسمساتا ہوا اٹھا مگر چند قدم چل کر پھر واپس پلٹا اور جھک کر میرے کام میں کہنے لگا۔ ’’ابھی سونے کا وقت نہیں۔ میں تمہیں ایک عجیب چیز دکھانا چاہتا ہوں۔ ذرا نسیمہ کو سو جانے دو۔‘‘ نہ جانے اس نے یہ فقرہ کس طرح سن لیا۔ ’’یہ کبھی نہ ہوگا۔ میں اس سنسان گھر میں ایک لمحہ بھی اکیلی نہ رہوں گی۔‘‘ نسیمہ نے چلا کر کہا ۔ ’’لیکن وہ تمہارے دیکھنے کی چیز نہیں۔‘‘ خلیل نے جواب دیا ۔ ’’مگر تنہا رہ کر تو شاید میں زندہ بھی نہ بچ سکوں گی۔ نسیمہ نے مچلتے ہوئے کہا۔
یکایک ایک پرحسرت اور مدھم سا ساز سنائی دیا۔ ہم سب چونک پڑے ۔ ’’اوہو وقت بہت ہوگیا ہے۔ وحشی نوت نے اپنی عبادت بھی شروع کردی۔‘‘ خلیل نے کہا ۔۔۔ اس ساز میں کچھ ایسا ناپاک شیطانی اثر تھا کہ میرا دل دھڑکنے لگا۔ نسیمہ کا چہرہ بھی زرد ہوگیا۔ ’’اف یہ ساز کس قدر منحوس ہے مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے میں وادیٔ موت میں داخل ہو رہاہوں۔ کیا تم اسے بند کراسکتے ہو؟‘‘ میں نے بے چینی سے کہا۔
’’یہ تو بہت مشکل ہے‘‘ خلیل نے کہا۔ ’’نوت کو کیسے روکا جائے۔ وہ بہرہ ہونے کے علاوہ اس ساز کے بجانے میں اتنا محو ہوجاتا ہے کہ اسے تن بدن تک کاہوش نہیں رہتا‘‘۔ ’’ایسے خوفناک آدمی کو برطرف کیوں نہیں کردیتے۔‘‘ نسیمہ نے کہا ۔ پسند تو اسے میں بھی نہیں کرتا۔ خلیل نے کہا۔ ’’لیکن یہ بڑے کام کا آدمی ہے۔ اس کی وساطت سے مجھے چند ایسی عجوبہ اور نادر اشیا دستیاب ہوئی ہیں جو ایک وحشی قوم کی ملکیت تھیں۔ یہ قوم صحرا میں غاروں کے اندر رہتی ہے۔ نوت اسی قوم کا فرد ہے۔ میں اسے بمشکل رام کرسکا۔‘‘ پھر کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد کہنے لگا۔ ’’وقت گزر رہا ہے۔ اگر تم لوگ کچھ دیکھنا چاہو تو میں تیار ہوں۔‘‘ ہم اٹھ کھڑے ہوئے۔ اور وہ ہمارے آگے آگے چلنے لگا۔ سب سے اوپر والی منزل پر جاکر اس نے ایک طویل و عریض کمرہ کھولا۔ اس کمرے میں دروازوں پر بھاری بھاری زرتار پردے لٹک رہے تھے۔ اور اندر نہایت اداس اور حسرت آمیز بھینی بھینی خوشبو پھیل رہی تھی۔ خلیل نے احترام کے طور پر جھک کر وزنی زرتار پردہ اٹھایا اور ہم لوگ اندر داخل ہوئے۔ کمرے میں زردوز پردوں کے ساتھ ساتھ جابجا برقی قمقے جگمگا رہے تھے۔ وسط میں دو تابوت پڑے تھے جن میں ایک سونے کا تھا اور دوسرا پتھر کا۔
خلیل نے پہلے پتھر کے تابوت سے ڈھکنا اٹھایا۔ ایک دم ہم سب پر رقت طاری ہوگئی۔ اس تابوت میں دو خوش رو نوجوان پہلو بہ پہلو لٹائے گئے تھے۔ یہ حنوط شدہ لاشیں بالکل زندل معلوم ہوتی تھیں۔ ان کے شاندار چہروں پر جنہیں موت کا خونخوار پنجہ بھی نہ بگاڑ سکا تھا۔ ایک ملاحت آمیز غم کی جھلک نمایاں تھیں۔ ان کی لمبی لمبی عبرت آمیز آنکھوں سے بلا کا درد اور انتہائی بے کسی ٹپک رہی تھی۔ ان مردہ نوجوانوں کو دیکھ کر میرے دل میں ان کے لیے ہمدردی اور رحم کا جذبہ تڑپ اٹھا۔ ان نوجوانوں کا صرف چہرہ ہی عریاں تھا، باقی جسم روغنی پٹیوں میں لپٹان گیا تھا۔ تاہم وہ پٹیاں ان کے بانکپن پر اثرانداز نہ تھیں ۔ ’’ نہ جانے یہ رعنا جوان کس طرح ملک الموت سے مغلوب ہوئے ہوں گے۔‘‘ میں نے دلی رنج سے کہا۔ ’’ان دونوں کے حالات زندگی ایک درخت کی چھال پر لکھے ہوئے موجود تھے۔‘‘ خلیل نے کہا۔ ’’میں نے ایک عالم کے پاس جو مردہ زبانوں کا ماہر ہے۔ بھیج دیے ہے۔ تاکہ یہ زمانہ رفتہ کی مٹی ہوئی نشانیاں موجودہ زمانے کے مہذب لوگوں سے متعارف ہوجائیں۔‘‘
اس کے بعد اس نے سونے کے تابوت سے ڈھکنا اٹھایا۔ اب ایک دلفریب سین میرے پیش نظر تھا۔ تابش حسن سے میری آنکھیں جھک گئیں۔ اس تابوت میں ایک ایسی نازنین ابدی نیند سو رہی تھی جسے حسن و شباب کی دیوی کہنا بجا تھا ۔ حسین ساچہرہ جو کبھی آسمانِ حسن کا چمکتا ہوا ستارہ تھی فناہوکر بھی اپنے حسین جلوے بکھیر رہی تھی۔ اس کے خدوخال سے حسن کے سوتے پھوٹ رہے تھے ۔ یہ حسینہ پٹیوں کی بجائے قدیم مصری زرتار لباس میں ملبوس تھی۔ اس کے سر پر عقاب نما سنہری تاج تھا۔ جس کے نیچے کاجل کے سے سیاہ بالوں کی لٹیں شعلہ گو چہرے کے گرد حلقہ بناتی ہوئی اس طرح سینہ پر پڑی تھیں۔ جیسے چاند کے گرد کالی گھٹائیں۔ وہ ایک زردوز بستر پر نہایت شان و شوکت سے رکھی گئی تھی۔
خلیل اسے دیکھتے ہی کھل گیا۔ وہ اس شمع خاموش پر پروانہ وار نثار ہونے لگا اسے یہ احساس تک نہ رہا کہ یہ حسن و جمال کی پتلی کسی نامعلوم زمانہ سے فرشتہ اجل کی سرد آغوش میں سو رہی ہے۔ اس کی گرم جوشیاں اب اسے بیدار نہ کرسکیں گی ۔ میں دنیا کی بے ثباتی پر اشکِ حسرت بہاتا ہوا پھر ان اجل رسیدہ جوانوں کے پاس آکھڑا ہوا۔ یکایک میری نظر ایک نوجوان کی گردن کے ایسے مقام پر پڑی جہاں سے روغنی پٹی ذرا نیچے کو سرکی ہوئی تھی۔ شاہ رگ کے قریب ایک سیاہ داغ دکھائی دیا۔ میں نے پٹی پوری طرح ہٹائی۔ یہ ایک چھری کے زخم کا نشان تھا۔ میرے منہ سے ایک دلدوز آہ نکلی۔ یہ جوان شاید لڑائی میں مارا گیا تھا۔ میں یہی سوچ رہا تھا کہ ناگاہ دوسرے نوجوان کی گردن پر بھی مجھے اسی طرح کا ایک سیاہ داغ نظر آیا ۔ میں کانپ اٹھا اور خیال کرنے لگا کہ شاید دونوں مجرم تھے جو اس زمانہ کے قانون کے مطابق ہلاک کیے گئے مگر ان کے چہروں پر ایک ملکوتی نور برس رہا تھا وہ مظلوم معلوم ہوتے تھے۔ خلیل ابھی تک اس حسینہ کی لاش کے قریب کھڑا تھا۔ اس کی حالت اب ایک افسوسناک حدتک پہنچ چکی تھی۔ وہ لاش سے اظہار محبت کر رہا تھا۔
خلیل یہ کیا پاگل پن ہے ہوش میں آؤ۔ کیا تم نہیں جانتے کہ تم ایک لاش سے اظہار محبت کر رہے ہو۔ میں نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا ۔ ’’ممتاز اسے مردہ کہہ کر میرا دل نہ دکھاؤ۔ یہ زندہ ہے اور اپنی خاموش آنکھوں سے میری محبت کا جواب دے رہی ہے۔‘‘ خلیل نے اسی مجنونانہ انداز سے کہا ’’آہ! ایسا سحر کار حسن کسی کو نہیں ملا۔ میں اس سے محبت کرتا ہوں۔ آؤ تم بھی اس کی محبت کا اقرار کرو۔‘‘ میں متوحش نگاہوں سے اس حسینہ کی لاش کو دیکھ رہا تھا۔ مجھے ایسا معلوم ہوا کہ اس کی آنکھیں مجھے اپنے اندر جذب کر رہی ہیں۔ ’’ہاں میں بھی اس سے محبت کرتا ہوں۔‘‘ میں نے کسی نامعلوم جذبہ سے مجبور ہوکر کہا۔ عین اسی وقت مجھے اپنے قریب ایک ٹھنڈا سانس سنائی دیا۔ میں نے چونک کر دیکھا تو نسیمہ میرے پہلو میں سہمی ہوئی کھڑی تھی۔ اس کا رنگ زرد ہو رہا تھا۔ میں نے کندھوں کو جھٹک کر اپنے حواس درست کیے۔
تم بھی اس سے محبت کرتے ہو۔ خلیل نے وفورمسرت سے کہا۔ ’’نہیں میرے پاس اس سے بہتر چیز موجود ہے۔‘‘ میں نے بلند آواز میں کہا اورنسیمہ کا ہاتھ پکڑ کر جلدی اس کمرے سے باہر نکل آیا۔
رات ہم نے انتہائی اضطراب میں بسر کی۔ خلیل کی بابت کچھ معلوم نہ ہوسکا کہ وہ اس لاش کے پاس رہا یا اپنے کمرہ میں۔ صبح کے اجلالے میں ہماری حالت قدرے سکون پذیر ہوئی ۔ جتنی جلدی ہوسکے ہمیں یہاں سے چل دیناچاہیے۔ نسیمہ نے کہا۔ ’’اتنی جلدی تو خلیل کبھی جانے نہ دے گا۔‘‘ میں نے جواب دیا۔ ’’اس کی اجازت کی ضرورت نہیں۔‘‘ نسیمہ نے کہا ’’ہمارا یہاں رہنا سخت خطرناک ہے۔‘‘ اگر تم اس لاش سے ڈرتی ہو تو میں بھی اس سے نفرت کرتا ہوں۔‘‘ میں نے کہا۔ ’’اب پھر کبھی اسے نہ دیکھوں گا۔ خاطر جمع رکھو‘‘۔ ’’اگر تم وہاں نہ جاؤگے تو وہ خود یہاں آجائے گی۔‘‘ نسیمہ نے کہا۔ ’’کیا خوب لاش یہاں آجائے گی۔‘‘ میں نے ہنس کر جواب دایا۔۔۔ ’’وہ مردہ نہیں ۔ میں نے اپنی آنکھوں سے اسے زندہ دیکھا ہے۔‘‘ نسیمہ نے بے قرار ہوکر کہا۔’’یہ تمہارا وہم ہے۔‘‘ میں نے کہا ہرگز نہیں‘‘۔ اس نے کہا ’’جس وقت خلیل اس سے اظہار محبت کر رہا تھا، تم نے دھیان نہیں کیا۔ اس کے لبوں پر ایک فاتحانہ تبسم کھیل رہا تھا۔ پھر جب خلیل اس کی تعریف کر رہا تھا۔ اس وقت بھی اس کی آنکھوں میں زندگی کے آثار موجود تھے۔ چنانچہ اس نے اپنی مخمور آنکھوں سے تمہیں بھی محبت کا پیغام دیا۔ اور تم بھی مجبوراً اس کی محبت کااعتراف کرنےلگے۔‘‘ میں تھرا گیا۔ رات والی کیفیت مجھے یاد آگئی۔ نسیمہ سلسلۂ کلام جاری رکھتے ہوئے کہنے لگی۔ ’’شاید تم نے نہ دیکھا ہو۔ جب تم نےاس کے مقابلے میں مجھے بہترین قرار دیا تو فوراً اس کی پیشانی پر بل پڑ گئے اور جب ہم باہر نکل رہے تھے تو میں نے پلٹ کر دیکھا تو اس کے تیور بگڑے ہوئے تھے۔ وہ غضبناک نگاہوں سے گھور گھور کر ہمیں دیکھ رہی تھی۔‘‘
میں نے اس کا وہم دور کرنے کی بہت کوشش کی۔ مگر وہ اپنی بات پر اڑی رہی۔ اتنے میں خلیل بھی آگیا۔ اس کی خمار آلود آنکھوں سے صاف ظاہر تھا کہ وہ رات بھر جاگتا رہا ہے۔ میں نے نسیمہ کی علالت کا بہانہ کرتے ہوئے اس سے واپسی کی اجازت چاہی اور آخر کار اس کی انتہائی مخالفت اور ناراضگی کے باوجود ہم لوگ وہاں سے چلے آئے۔
کلکتہ سےآئے ہمیں آٹھ مہینے گزر چکے تھے کہ اچانک خلیل کی موت کا تار ملا۔ یہ تار اس کے قانونی مشیر اپدیش چندر کی طرف سے تھا۔ خلیل نے اپنا بنگلہ وغیرہ میرے نام چھورا تھا۔ خلیل کی موت سے مجھے بے حد صدمہ ہوا۔ اور اسی دن کلکتہ چلا گیا۔
اس کابنگلہ دیکھ کر میرے رنج و غم میں مزید اضافہ ہوا۔ بنگلے پر پہلے سے بھی زیادہ دل شکن نحوست چھا رہی تھی۔ ایک بھیانک افسردگی اور دلگیری اداسی درودیوار سے ہویدا تھی۔ میں متوفی کے کمرے میں گیا جہاں چند ملازم اور ایک بوڑھا مولوی موجود تھا۔ جس نے تجہیز و تکفین کی آخری رسومات ادا کرنی تھیں ۔ کفن کا بند کھولا گیا۔ اس کی لاش کو دیکھ کر میرے دل پر سخت چوٹ لگی۔ موت سے ہم آغوش ہوکر اس کاحسن بجائے پژمردہ ہونے کے نکھر گیا تھا۔ اس کے نقش اتنے دلکش اور تیکھے ہو رہے تھے کہ معلوم ہوتا تھا جیسے کسی دیوتا کی مورتی تراش کر کفن میں رکھی گئی ہے۔ مگر جس چیز نے مجھے زیادہ متوجہ کیا وہ ایسی علامات تھیں جو ان حنوط شدہ نوجوان کے بُشرے سے پائی جاتی تھیں۔ جنہیں گزشتہ سال میں اسی بنگلہ میں دیکھ چکا تھا۔ انہیں کی طرح اس کی نیم و آنکھوں سے بھی بیکسی ظاہر ہوتی تھی۔ اس کے نمکین چہرے پر بھی وہی مظلومی کی جھلک اور کافوری پیشانی پر حُزن و ملال کے آثار تھے۔ اس کے کاغذی لبوں پر ایسا دردناک خم تھا۔ گویا وہ ابھی فسانۂ غم سنایا ہی چاہتا ہے ۔ ملازم نے اسی دم اس کی گردن سے کفن سرکایا۔ آہ میں دھک سے رہ گیا۔ اس کی گردن پر بھی ویسا ہی چھری کا زخم موجود تھا ۔ پولیس کی تحقیقات ختم ہوچکی تھی۔ اس کی موت کو خودکشی قرار دیا گیا۔ جو اس نے پتھر کی چھری سے کی تھی۔ یہ وہی چھری تھی جو پچھلے سال میں خلیل کے ڈراینگ روم میں دیکھ چکا تھا۔ گو یہ پہلے بھی خون آلود تھی مگر اب خون بالکل تازہ معلوم ہوتا تھا۔ اس چھری کو دیکھ کر مجھے سنگِ جراحت کا وہ پیالہ بی یاد آگیا جو پچھلے سال میں نے اس چھری کے قریب پڑا دیکھا تھا۔ میں اسی وقت ڈرائنگ روم میں گیا اور پیالے کو دیکھا تو اس کی تہہ میں جمی ہوئی سرخی بھی اب تازہ تھی۔ لوگ اس کی موت کو خودکشی کہیں مگر میں اسے خودکشی کہنے کے لیے تیار نہ تھا۔
اسی ضمن میں میری ملاقات ڈاکٹر رمل بابو سے ہوئی۔ جس سے خلیل عموماً طبی مشورہ لیا کرتا تھا۔ دورانِ گفتگو میں اس نے کہا ’’خودکشی سے دوماہ پیشتر خلیل سخت بیمار ہوا۔ اور تشخیص سے معلوم ہوتا تھا کہ اس پر کسی دہشت کااثر ہے۔ وہ مجھے کچھ کہنا چاہتا تھا۔ مگر کہہ نہ سکتا تھا۔ آخرکار ایک دن اس نے حوصلہ کرکے کہہ ہی دیا کہ رمل بابو میرے پاس ایک مصری عورت کی حنوط شدہ لاش ہے جس سے میں سخت خوفزدہ ہوں اور اس سے بچنا چاہتا ہوں۔ مگر کوئی غیرمرئی قوت مجھے زبردستی اس کی طرف کھینچ لے جاتی ہے اور یہی میری بیماری کا باعث بن رہی ہے۔ میں نےاسے صلاح دی کہ وہ لاش کو کسی عجائب خانہ میں بھیج دے۔ تاکہ لاش کو دیکھنے کا امکان ہی باقی نہ رہے۔ میرے مشورے پر اس نے وہ لاش کہیں بھیج دی لیکن اس کے بعد وہ بالکل پاگل ہوگیا۔‘‘
ادھر اپدیش چندر کا بیان بھی کچھ عجیب و غریب تھا وہ کہتا تھا کہ خودکشی سے آٹھ دن پیشتر اس نے اسے بلاکر وصیت لکھائی۔ اس کے ہوش و حواس قائم تھے۔ تاہم وہ انتہائی خوفزدہ تھا۔ ’’اپدیش بابو شاید یہ ہماری آخری ملاقات ہو۔ کیونکہ مجھے عنقریب ایک روح اس دنیا سے لے جائے گی۔‘‘ یہ اس کے آخری الفاظ تھے۔ اس تحقیقات کے بعد میں کئی دن تک کھوج لگانے میں کوشاں رہا۔ مگر اس سے زیادہ کچھ معلوم نہ ہوسکا۔ نوبت بھی موجود نہ تھا۔ کیونکہ وہ خلیل کی زندگی میں ہی اپنے وطن کو جاچکا تھا۔ ورنہ اسی سے کچھ سراغ مل سکتا۔ آخر کار میرا شک یقین میں تبدیل ہوگیا کہ خلیل کی موت کا راز اس مصری حسینہ کی پراسرار لاش سے وابستہ ہے۔ اور اس راز کو سمجھنے کی میں نے بے حد کوشش کی لیکن یہ ایک ایسا معمہ تھا جس کا حل میری طاقت سے باہر تھا۔ چنانچہ میں نے مایوس ہوکر یہ خیال ترک کردیا اور خلیل کی آخری رسومات ادا کرکے اپنے گھر چلا آیا۔
اس اندوہناک واقعہ کو ابھی بمشکل ایک ماہ ہی گزرا تھا کہ ایک رات نسیمہ خواب میں ڈر گئی۔ چونکہ خلیل والے پرہول واقعے کی یاد ابھی ہمارے دلوں میں تازہ تھی۔ اس لیے اس خواب کو خالات کا اثر سمجھ کر کوئی اہمیت نہ دی گئی۔ مگر کچھ دن بعد جب وہ پھر خواب میں ڈر گئی تو مجھے بہت تشویش ہوئی۔ اس دفعہ وہ انہتائی خوفزدہ تھی۔ اسے خواب میں اس مصری حسینہ کی لاش بھی دکھائی دی۔ اس خواب کا اس پر ایسا برا اثر ہوا کہ وہ بیمار رہنے لگی اور روزبروز اس کی صحت گرتی گئی۔ اس عرصہ میں میں نے اس کے علاج میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیا لیکن کچھ فائدہ نہ ہوا۔
خوش قسمتی سے انہی دنوں مسٹر سعید جو میرا قریبی رشتہ دار تھا ولایت سے ڈاکٹری پاس کرکے آیا۔ اس نے نسیمہ کا معائنہ کرکے بتایا کہ کوئی زہریلی خوراک کھانے سے اس کی صحت خراب ہو رہی ہے۔ چنانچہ وہ بہت تندہی سے اس کاعلاج کرتا رہا۔ اسے کئی قسم کے باتھ اور انجکشن دیے گئے۔ رنگین شعاعوں کا عمل بھی ہوتا رہا۔ پھر بھی وہ صحت یاب نہ ہوسکی۔ ایک دن سعید نے مجھے ہدایت کی کہ اس کی خوراک وغیرہ کا خاص خیال رکھوں۔ اس کاخیال تھا کہ ابھی تک تھوڑی تھوڑی مقدار میں زہر اس کے اندر جارہا ہے۔ جب اس احتیاط کے باوجود بھی افاقہ کی صورت دکھائی نہ دی تو اس نے مایوس ہوکر کہا ’’ممتاز میں تمہیں زیادہ دیر لاعلمی میں رکھنا نہیں چاہتا۔ نسیمہ کی زندگی خطرے میں ہے۔ اسے برابر زہر دیا جارہا ہے۔ اور میں نہیں جانتا کہ یہ عجیب قسم کا زہر ہندوستان میں کیسے آیا۔ کیونکہ یہ زہر مصری چھپکلی کے پتے سے نکلتا ہے۔ یہ انسان کو یکدم ہلاک نہیں کرتا بلکہ آہستہ آہستہ اپنا کام کرتا ہے۔‘‘ سعید کے منہ سے یہ الفاظ سن کر میں دہل گیا۔ میں نے خلیل کی موت اور حنوط شدہ لاش کی شیطانی قوت کا سبب واقع اس کے گوش گداز کردیا۔ ’’میں نہیں کہہ سکتا۔ ان واقعات میں کہاں تک صداقت ہے۔‘‘ سعید نے کہا۔ ’’تاہم یہ ضرور مشورہ دوں گا کہ نسیمہ کو مصر لے جاؤ۔ وہاں کے ڈاکٹر ضرور اس زہر کا تریاق جانتے ہوں گے۔ شاید وہ اسے اچھا کرسکیں۔‘‘
سعید کی گفتگو سے صاف ظاہر تھا کہ نسیمہ کا مرض لاعلاج ہے۔ میں بے اختیار پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ سعید نے مجھے تسلی دی اور اپنی ہمدردانہ باتوں سے میرا حوصلہ بڑھایا۔ دنیا بامید قائم ہے۔ میں آخری بار قسمت آزمائی کرنے کو تیار ہوگیا۔ اس مصیبت میں سعید نے میری بہت مدد کی۔ اس نے اپنے ایک مصری دوست عمر آفندی کے نام (جس نے اس کے ساتھ ہی ڈاکٹری پاس کی تھی) چٹھی لکھی کہ میرا ایک عزیز اپنی بیوی کے علاج کے لیے مصر آرہا ہے۔ اس کی امداد میں کوتاہی نہ کی جائے۔ چنانچہ اسی مہینے کے اخیر میں ہم لوگ اپنے وطن سے روانہ ہوگئے۔
عمرآفندی نہایت نیک دل، مہمان نواز اور مشفق دوست ثابت ہوا۔ اس نے ہماری تنہائی اور غریب الوطنی کا خیال کرتے ہوئے نہ صرف اپنی کوٹھی کے ایک حصے میں کچھ کمرے دے رکھے تھے۔ بلکہ اس کی نیک نفسی نے یہ بھی گوارا نہ کیا کہ ہم کھانے کا انتظام ہی علیحدہ کریں۔ اس کی خوش اخلاقی اورخلوص نےہمیں گرویدہ کرلیا ۔ مصر کی معتدل آب و ہوا اور عمر آفندی کی قابل قدر کوششوں سے نسیمہ تین مہینے کے اندر اندر تندرست ہوگئی۔ مگر عمر آفندی کی ہدایت کے مطابق ابھی کچھ عرصہ ہمیں یہاں اور ٹھہرنا تھا۔
انہی ایام میں یکایک مجھے ایک عجیب عارضہ لاحق ہوگیا۔ یعنی رات کو نیند مجھ سے کوسوں دور ہوجاتی اور میں بے چینی سے کروٹیں بدلتارہتا۔ میں اکثر خیال کرنے لگتا۔ شاید میری کوئی چیز گم ہوگئی ہے۔ میں اس چیز کو حاصل کرنا چاہتا تھا۔ مگر معلوم نہ تھا وہ چیز کیا ہے۔
ایک دن آدھی رات کو ایک ناقہ سڑک پر گزرا اس کے گلے کی گھنٹیوں کی صدا مجھے اس قدر پیاری معلوم ہوئی کہ میں نے محسوس کیا۔ میں اسی چیز کی تلاش میں تھا۔ وہ آواز مجھے اپنے اندر جذب کرنے لگی۔ میں نے ارادہ کیا کہ اس ساربان کے ساتھ کہیں چلا جاؤں۔ اس دن سے روزانہ وہ ناقہ آدھی رات کو سڑک پر سے گزرنےلگا۔ میں گھنٹوں اس آواز کا منتظر رہتا جونہی وہ سہانی صدا میرے کان میں پڑتی میں ایک مسرت آگیں خواب میں محسور ہوجاتا۔ رفتہ رفتہ یہ صدا میری زندگی کا جزو بن گئی اور نہ جانے کس طرح میں نے ساربان سے دوستی بھی پیدا کرلی۔ اس گھنٹی کی صدا سنتے ہی میں فوراً سڑک پر پہنچ جاتا اور اس سے باتیں کیا کرتا۔ اس کی باتیں کچھ ایسی دل کش اور پیاری تھیں کہ میرا دل مسرت سے لبریز ہوجاتا اورمیری روح ایک لذت انگیز نشہ میں سرشار ہوجاتی۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ وہ کس قسم کی باتیں ہوتیں جن سے میں اتنا مسرور ہوتا۔ کیونکہ اس کے جانے کے بعد مجھے وہ باتیں ایک بھولا ہوا خواب معلوم ہوتی تھیں۔ میں اس کی ساتھ کسی نامعلوم اور پرسکون دنیا میں جانا چاہتا تھا مگر اسے دیکھ کر میری زبان پر مہر لگ جاتی اور اعضا بے حس و حرکت ہوجاتے۔ میں اس پراپنی دلی کیفیت کااظہار نہ کرسکتا تھا۔ جب وہ آگے بڑھ جاتا تو میں ناقہ کے نقش پا پر وحشیانہ انداز سے دوڑنے لگتا اور تھک جانے پر جب اس محسور کن رنگین خواب سے ہشیار ہوتا تو میری بہت بری حالت ہوتی۔ ساربان کی پرحلاوت باتوں سے میرا دل ایسا مسخر ہوتا کہ مجھے دنیا کی کسی چیز سے دلچسپی نہ رہی۔ میں نسیمہ کو اب بھی خوش رکھنے کی کوشش کرتا۔ مگر مجبوراً ۔ عمر آفندی سے اب بھی میرے دوستانہ تعلقات تھے مگر خالی از خلوص۔ عمر آفندی نے میری اس کیفیت کو خاص طور پر محسوس کیا وہ مجھے پہروں ٹکٹکی باندھے گھورا کرتا اور میرے حرکات و سکنات کی سختی سے نگرانی کرتا۔ آخرکار اس نے میرے سحرزدہ انقلاب کا خوگر ہوکر میرا خیال بالکل چھوڑ دیا۔ عمرآفندی کو ان دنوں گھوڑوں کا خبط سمارہا تھا اس نے کئی اعلیٰ نسل کے گھوڑے خریدے جن میں ایک عربی نسل کا سبک خرام اور شاندار گھوڑا عوف نامی اسے بہت محبوب تھا۔ نسیمہ بھی اس کے اس شغل میں شامل تھی۔ وہ ان گھوڑوں کی دیکھ بھال میں گہری دلچسپی لیتی۔ موسم خزاں کی مضطرب راتیں اور قمری مہینے کی سترھویں تاریخ تھی۔ زوال پذیر چاند کے رخ روشن پر ہوائیں اڑ رہی تھیں۔ فلک نشین اوردرخشاں ستاروں کا رنگ فق ہو رہا تھا۔ چاندنی کسی حسین بیوہ کی طرح سوگوار تھی۔ اس اداس چاندنی کے سائے میں تمام صحرا کفن پوش دکھائی دیتا تھا۔ ٹھنڈی ریت کے پامال شدہ ذرات سے پراگندہ فضا میں پریشان ہوا کے سستائے ہوئے جھونکوں کے ساتھ ارواحِ خبیثہ کے ماتمی نغمے گونج رہے تھے۔ دریائے نیل کی بدمست لہریں نہایت انتشار کے ساتھ ہر ایک کے سامنے تاریخ مصر کو دہراتی ہوئی رواں دواں تھیں۔
آج میں بہت بے تاب تھا۔ میں نے تہیہ کرلیا کہ اپنے صحرائی دوست سے التجا کروں گا کہ وہ مجھے اس عزلت کدہ سے نکال کر کسی دل آویز فردوسی دنیا میں لے جائے۔
وقت مقررہ پر جب ناقہ کی گھنٹیوں کی سریلی صدا میرے کانوں میں پڑی تو میں دیوانہ وار باہر نکل آیا۔ نہ جانے میرے دل میں کیا آرزو تھی۔ میں اس سے کیا کہنے والا تھا۔ مگر اسے دیکھ کر میری زبان بند ہوگئی۔ میں نے بے اختیار بازو پھیلادیے وہ ایک لمحہ کے لیے رکاپھر اس نے ایک چھوٹی سی رسی کی سیڑھی میری طرف پھینکی اور میں بے تابی سے ناقہ پر سوار ہوگیا۔
میں ایک سرور کی حالت میں کجاوے پر بیٹھا تھا۔ گھنٹیوں کی مترنم ریر صدا میرے سازِدل کی تاروں کو چھیڑ رہی تھی۔ میں خوشیوں کی لامحدود اور شاندار لہروں میں سما رہا تھا اور ناقہ برق رفتاری سے چل رہا تھا۔
نہ جانے ناقہ کب تک یونہی چلتا رہا۔ یکایک ایک بڑے گھنٹے کی آواز دور سے سنائی دینے لگی، جسے سنتے ہی میں اچھل پڑا۔ میری روح سمٹ کر آنکھوں میں آگئی اور سینے میں جذبات کا طوفان امڈنے لگا۔ میں اس جگہ جانے کے لیے بے تاب ہوگیا۔ جہاں سے وہ دلنواز اور اچھوتی صدا بلند ہو رہی تھی۔ ناقہ اب چھوٹی چھوٹی گھاٹیوں کو عبور کرکے ایک عظیم الشان وادی میں داخل ہونے والا تھا۔ کہیں دور جھلملاتی ہوئی برقی روشنی میں فلک شکوہ اہرام کی چوٹیاں دکھائی دے رہی تھی۔
ناقہ یک دم گھاٹی کے نیچے ایک شگاف کے سامنے رک گیا۔ یہاں چار آدمی ہاتھوں میں مشعلیں لیے ہمارے منتظر تھے۔ میں اسی بے تاتی سے نیچے اترا۔ یہ شگاف دراصل ایک غار تھا۔ میں ان لوگوں کے ہمراہ اس میں داخل ہوا۔ مگر اندر قدر رکھتے ہی گھنٹے کی صدا بند ہوگئی اور یکلخت اس سحرزدہ مدہوشی سے بیدار ہوکر میں نے گردوپیش کے مناظر پر نظر ڈالی۔ ’’شاید میرا صحرائی دوست مجھے کسی خفیہ خزانے کا راز بتانے والا ہے۔‘‘ میں نے دل میں کہا غار میں ایک لمبا اور نیچا راستہ تھا جس کے ذریعہ ہم کسی تہ خانے میں اتر رہے تھے۔ حتی کہ غار کے اختتام پر پہنچ کر ہم رک گئے۔ یہ جگہ اتنی تاریک تھی کہ مشعل کی روشنی بھی کام نہ دے سکتی تھی۔ میں نے چاروں طرف آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے کی کوشش کی مگر کچھ دکھائی نہ دیا۔ یہاں کسی نامعلوم جگہ سے ایک مدھم سے ساز کی آواز آرہی تھی۔ یہ ساز بالکل ویسا تھا جیسا کہ خلیل کے گھر میں نوت بجایا کرتا تھا۔ اس آواز سے مجھ پر وہشت طاری ہوگئی اور کسی نامعلوم خطرے کا احساس ہونے لگا۔ مگرمیں وحشیوں کے نرغے میں تھا، بچاؤ کی صورت ہی نہ تھی۔
یکلخت اندھیرے میں ایک چور دروازہ کھلا، وہ لوگ مجھے ایک فراخ و آراستہ کمرے میں لے گئے جو روغن زیتون کے چراغو ں سے جگمگا رہا تھا۔ کمرے میں چاروں طرف شہ نشین بنے تھے۔ جن پر کئی تابوت قریتے سے رکھے گئے تھے۔ جابجا طلائی و نقرئی انگیٹھیوں میں چندن اور عود سلگ رہا تھا ۔ کمرے کے وسط میں الاؤ کے گرد بیس بائیس غیرمہذب صحرائی کسی خاص زبان میں کوئی منتر گا رہے تھے۔ اور ان میں ایک آدمی کسی انوکھی طرز کا ساز بجارہا تھا۔ ساز بجانے والے کو میں نے فوراً پہچان لیا، وہ نوتؔ تھا۔
مجھے دیکھتے ہی سب نے ایک نعرہ لگایا۔ صحرائی مجھے شہ نشین پر لے گیا۔ جہاں سونے کی ایک چوکی رکھی تھی جو عقاب کی مورتی کے پروں پر بنائی گئی تھی۔ مجھے اس پر بٹھادیا گیا۔ اور ایک شخص نے کوئی نہایت خوشبودار سفوف میرے بدن پر ملنا شروع کیا جس کے بعد مجھے چند بہت وزنی طلائی زیور پہنائے گئے۔ پھر ایک طلائی مکٹ میرے سر پر رکھا گیا جو سانپ کی شکل کا بنا ہوا تھا۔۔۔ غرض یہ کہ مجھے کسی قدیم شاہانہ طریقے سے سجایا گیا۔ بعدازاں سب نے مل کر کسی خاص زبان میں خاص طریقے سے میری پوجا کی۔ پوجا کے بعد وہ سب دوبارہ الاؤ کے قریب جاکر اپنی مذہبی عبادت میں مصروف ہوگئے۔ نوت شہ نشیں کے نیچے میرے پاؤں کے قریب بیٹھ کر اس منحوس ساز کو پوری قوت سے بجانے لگا اور صحرائی نے قریب رکھے ہوئے ایک تابوت کا ڈھکنا اٹھایا۔
تابوت میں رکھی ہوئی کسی لاش کے دونوں ہاتھ اوپر کو اٹھے۔ اور پھر آہستہ آہستہ وہ لاش انگڑائیاں لیتی ہوئی اٹھ کر بیٹھ گئی۔ لاش کو دیکھ کر میرا رہا سہا خون بھی خشک ہوگیا۔ کیونکہ یہ لاش اسی پراسرار حسینہ کی تھی جسے میں خلیل کے گھر دیکھ چکا تھا۔ اب وہ حیرت انگیز طور پر زندہ تھی۔ وہ ایک شاہانہ تمکنت کے ساتھ تابوت سے باہر نکلی اور عجیب نازوانداز سے خراماں خراماں میرے پاس آکھڑی ہوگئی۔
میں انتہائی دہشت سے چیخنے لگا ’’کم بخت! ڈرتا کیوں ہے؟‘‘ صحرائی نے حقارت سے کہا۔ ’’ایسی باعزت موت تو کسی خوش قسمت کو ہی میسر ہوتی ہے۔‘‘
نوت نے کہا ’’وقت زیادہ ہوگیا ہے۔ اس کے سامنے دیوی کا مقدس عود دوہراکر یہ رسم جلدی ادا کردینی چاہیے۔‘‘
صحرائی لاش کے پاس باادب کھڑا ہوکر کہنے لگا ’’سُن اے ہندی آج سے کئی ہزار سال پیشتر فراعنہ مصر میں سے ہارہب نامی ایک جلیل القدر بادشاہ تھا۔ جو اپنے عقیدے کا پکا اور مذہب کا زبردست حامی تھا۔ اس کی ایک حسین اور عالی وقار بیٹی تھی جسے وہ بہت چاہتا تھا ۔ شہزادی کانام مریستار تھا اس کے حسن کا تمام ملک میں شہرہ تھا کئی عالی مرتب شہزادے اور والیان ملک اس کے خواہان تھے۔ سینکڑوں بہادر اور رنگیلے درباری اس کی محبت میں دیوانے ہو رہے تھے۔ ہر نوجوان کے سر میں اس کا سودا تھا۔ مگر شہزادی کا نظریہ دنیائے مختلف تھا وہ مردوں کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتی اور خصوصاً عشاق کے ساتھ نہایت حقارت آمیز سلوک کرتی۔ وہ عابدہ اور زاہدہ ہونے کے علاوہ اپنے باپ کی طرح مذہب کی ولدادہ تھی۔ اسی مذہبی دیوانگی کی وجہ سے وہ سولہ سال کی عمر میں خدائے رع کے معبد میں راہبہ بن گئی۔ اس نے اپنے مذہبی طریقے پر قسم اٹھاکر اعلان کردیا کہ اب وہ مذہباً یا قانوناً کسی مرد کی نہیں ہوسکتی ۔ دو سال کے اندر اندر اس نے اتنی روحانی ترقی کی کہ اس کی عظمت کا سکہ عوام الناس کے دلوں پر بیٹھ گیا۔ اس کی زبان میں ایسی تاثیر پیدا ہوگئی کہ جو کچھ وہ زبان سے کہتی پورا ہوجاتا۔ یعنی اسے ایک دیوی کا رتبہ حاصل ہوگیا۔‘‘
لیکن جب وہ اس منزل میں تھی تو خدائے رع نے اس سے ایک کڑی آزمائش چاہی۔ اسے ایک ایسا غیر متوقع معاملہ پیش آیا کہ ارادے متزلزل ہوگئے۔ اس کو صحیح راستہ سے بہکانے والا نارمر تھا۔ یہ نوجوان خدائے رع کے عقیدت مندوں میں سے تھا جو تھوڑے ہی دنوں سے معبد میں وارد ہوا تھا۔‘‘
نارمر خوبصورتی اور بانکپن کی زندہ مثال تھا۔ اس کی آواز میں مٹھاس تھی۔ جب وہ خدائے رع کی بارگاہ میں اس کی عظمت کے گیت خلوص دلی اور خوش گلوئی سے گاتا، تو مریستار کے دل پر اس کا خاص اثر ہوتا۔ محبت و مسرت سے معمور نغمے اس کی روح کی لطافتوں سے ہم کنار ہوتے اور کسی نامعلوم جذبے سے اس کا دل دھڑکنے لگتا۔‘‘
رفتہ رفتہ مریستار کو معلوم ہونے لگا کہ وہ اپنامقدس دل نارمر کی نذر کرچکی ہے۔ وہ اکثر عشق و محبت کے رنگین اور شیریں خوابوں میں مدہوش رہنے لگی اور اس کا دل گناہ کی آلودگیوں سے ملوث ہونے لگا۔ گو اس نے نارمر سے بچنے کی بہت کوشش کی۔ لیکن اس کی خوش نما پیکر میں کچھ ایسی کشش تھی جس کے آگے شہزادی مریستار جیسی مستقل مزاج اور غیور عورت کو جھکنا پڑا۔ اس نے اپنی قسم توڑ کر اپنے آپ کو نارمر کےحوالے کردیا۔
’’شہزادی کا یہ ناجائز عشق کچھ زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکا۔ نارمر اسے چھوڑ کر کسی دوسرے شکار کی تلاش میں پھرنے لگا۔ مریستار کو اپنی ناکامی کا سخت صدمہ ہوا۔ اس نے دوبارہ خدائے رع کی بارگاہ نیاز میں پناہ لینا چاہی۔ مگر اب وہ معتوب تھی۔ خدائے رع کے مذہبی قانون کے مطابق اسے اپنے محبوب کا خون پینا ضروری تھا۔ چنانچہ وہ ایک دن کسی طریقے سے اپنے بے وفا عاشق کو معبد میں لائی اور اس کی شاہ رگ کا خون نکال کر پیا۔ اس قربانی سے اسے پھر دیوی کارتبہ مل گیا۔ لیکن نارمر کی موت نے اس کا دل توڑدیا۔ اور اس نے اپنا دل بہلانے کی خاطر یہ طریقہ اختیار کیا کہ ہر سال وہ ایک نیا عاشق تلاش کرتی اور کچھ عرصہ عشق بازی کرکے پھر نارمر کی طرح اس کا خون پی کر خدائے رع کی خوشنودی حاصل کرلیتی ۔ ان متعدد قربانیوں سے خدائے رع اس پر بہت مہربان ہوا۔ شہزادی کاروحانی اقتدار اتنا بڑھا کہ اس کی بھی پرستش ہونے لگی۔ چنانچہ اس نے اظہار شکریہ کے طور پر خدائے رع کے حضور میں وعدہ کیا کہ وہ ایسی قربانیاں ہمیشہ کیا کرے گی۔ اور اس نے اپنی زندگی میں اس عہد کی پابندی سختی سے جاری رکھی۔ ہمارے بزرگانِ سلف اس دیوی کے پجاری تھے ۔ تیس سال کی عمر میں جب وہ سفرآخرت کرنے لگی تو اس نے اپنے بڑے پجاری کو ایک ایسا طریقہ سکھایا جس کے ذریعہ وہ پس مرگ بھی عشاق کی قربانی کا یہ سلسلہ جاری رکھ سکتی تھی۔ غرض یہ کہ وہ اس خاص طریقے سے مرکر بھی خوش رونوجوان سے محبت کرکے ان کا خون پیتی رہی ۔ اس زمانے کو صدیاں گزرگئیں۔
ملک میں کتنے انقلاب ہوئے۔ کئی نئے نئے مذہب دنیا میں آئے۔ رفتہ رفتہ لوگوں کے عقیدے کمزور ہوتے گئے۔ حتی کہ خدائے رع کا دین اس دنیا سے باکل نابود ہوگیا اور یہ معبد جو اس دیوی کی آخری آرام گاہ تھا لوگوں کی نظروں سے روپوش ہوگیا اور اس زمانہ کی سچی باتیں صرف روایتیں بن کر رہ گئیں۔ اقدارِ زمانہ سے پجاریوں کا اقتاد خاک میں مل گیا۔ ہمارے بزرگانِ سلف مفلسی میں مبتلا ہوکر خانہ بدوشی پر مجبور ہوگئے اور اس عرصہ دراز کی صحرائی زندگی نے انہیں بالکل وحشی بنادیا۔ میرا باپ نوت بچپن ہی سے اپنے بزرگوں کے قدیم مذہب کی طرف راغب تھا، وہ ان خداؤں کی پرستش کیا کرتا جن کے نام وہ کبھی اپنی بڑی بوڑھیوں سے سن چکا تھا۔ اس پرانے عقیدے کی برکت سے میرے باپ کو عالم رویا میں اس دیوی کی زیارت ہوئی۔ اس نے اسے اپنی آخری آرام گاہ کا پتہ دے کر اپنے مقدس عہد سے بھی آگاہ کیا اور وعدہ کیا کہ اگر وہ یا اس کی قوم اس کے بتائے ہوئے طریقے سے قربانی کا سلسلہ دوبارہ قائم کرے گی تو وہ لوگ خوش حال ہوجائیں گے۔ عہد گزشتہ کی اور بھی کئی باتیں میرے باپ کو الہامی طریقے پر معلوم ہوئیں۔ اس طرح میرے باپ نے اس معبد کا کھوج تولگا لیا لیکن قربانی کے واسطے نوجوانوں کو مہیا کرنا سخت خطرناک تھا کیونکہ اس طرح حکومت اس معبد کا برامدگی سے مطلع ہوکر اسے اپنے قبضے میں لے سکتی تھی۔ اس لیے انتہائی سوچ بچار کے بعد میرے باپ نے نوجوان سیاحوں کو پھانسنے کا فیصلہ کیا اور دیوی کے حضور میں کامیابی کی دعا مانگی۔ اسی رات پھر میرے باپ کو الہام ہوا اور دیوی نے اسے ایک خاص منتر بتایا۔ سو جب کبھی میرا باپ کسی سیاح کو قربانی کے واسطے منتخب کرتا تو راتوں کو اس معبد میں اس کی صورت کاتصور کرکے دیوی کے بتائے ہوئے منتر کا ورد کرتا جس کے اثر سے سیاح کا دل اس ناقہ کی گھنٹیوں سے تسخیر ہوجاتا۔ میں اسی غرض سے اس طرف لے جایا کرتا تھا اور وہ ایک دن اسی ناقہ کے ذریعے یہاں پہنچ کر دیوی کے عشق میں گرفتار ہوجاتا۔ حتی کہ سال کے اختتام پر اس کی قربانی کردی جاتی ۔‘‘
اس طریقے سے کئی سال تک قربانی کا سلسلہ جاری رہا۔ لیکن آج سے دوسال پیشتر ایک ہندی سیاح نے جس کا نام خلیل تھا نہ جانے کس طرح اس معبد کاسراغ لگالیا۔ اس نے حکومت کو مطلع کرنے کی دھمکی دے کر میرے باپ سے دیوی کی لاش خریدنا چاہی۔ میرا باپ شش و پنج میں پڑگیا۔ نہ تو وہ دیوی کی لاش کو فروخت کرسکتا تھا اور نہ ہی اس سے پیچھا چھڑا سکتا تھا۔ کیونکہ اس کے آنے سے چند دن پیشتر سفید قوم کے ایک نوجوان کا خون پیا جاچکا تھا اور سال ختم ہونے سے پیشتر اس کی قربانی جائز نہ تھی۔ میرا باپ تفکرات میں گھر گیا۔ اس کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ یہ گتھی کیونکر سلجھائی جائے۔ اسی حالت میں اسے دیوی نے حکم دیا کہ اس کی لاش خلیل کو دے دی جائے اور آئندہ سال قربانی بھی غیرملک میں ہی عمل پذیر ہو۔ چنانچہ دیوی کی لاش کے علاوہ اس کے عشاق میں سے نارمر اورایک شہزادے کی لاش بھی مع چند نادر اشیا کے اس کے حوالے کرنا پڑیں۔ ان لاشوں کی قیمت میں اس نے ہمیں اتنا زرنقد دیا کہ ہمارا کنبہ خوش حال ہوگیا۔‘‘
خلیل دیوی کو کلکتے لے گیا اورمیرے باپ کو قربانی کی رسومات ادا کرنےکے لیے اس کے ساتھ جانا پڑا۔ خلیل پر دیوی کے عشق کا بہت بُرا اثر ہوا۔ اور ایام قربانی کے قریب وہ سخت بیمار ہوگیا۔ آخر کار دو ایک ڈاکٹر کے کہنے پر دیوی کی لاش کو مصر کے عجائب خانہ میں بھجوا دینے پر آمادہ ہوگیا۔ نوت کے پاسپورٹ وغیرہ کا انتظام کرکے اس کو برطرف کردیا گیا اور لاشوں کو بھی بذریعہ جہاز مصر روانہ کردی۔ مگر دیوی کی روحانی طاقت کامیاب رہی۔ یعنی مال گودام و الوں کی غلطی سے دیوی کی لاش جہاز پر لادی نہ گئی اور دوسرے جہاز کی روانگی تک وہ مال گودام میں پڑی رہی۔ اس عرصہ میں میرا باپ لاش کی خفیہ طور پر نگرانی کرتا رہا۔ حتی کہ قربانی کی مقدس رات آپہنچی۔ نوت نے اپنے منتروں سے دیوی کو مال گودام میں ہی جگایا۔ جو نوت کے ہمراہ خلیل کے گھر گئی اور قربانی کی رسم ادا کرکے اپنے تابوت میں واپس آگئی ۔ اسی صبح کو دوسرا جہاز روانہ ہونے والا تھا۔ جس کے ذریعے یہ دوبارہ مصر میں آگئی اور ہم لوگ عجائب خانہ میں اس لاش کے بدلے ایک اور لاش رکھ کر اسے چرالائے۔ اب میرے باپ کو آیندہ سال کی قربانی کے واسطے پھر فکر لاحق ہوئی تو دیوی نے اسے بتایا کہ آئندہ سال کے لیے وہ نوجوان منتخب ہوچکا ہے۔ جو اسے خلیل کے گھر دیکھنے آیا تھا ۔ مگرتم دور تھے۔ اس لیے تمہارے یہاں لانے کے لیے باپ کو سخت محنت کرنا پڑی۔ وہ پورے دس ماہ منتر جپتا رہا تاکہ تم نیند کی حالت میں روزانہ اپنی بیوی کو چھپکلی کے پتے کا زہر دے کر ہلاک کردو۔ چونکہ خلیل کے گھر تم نے باوجود دیوی کی محبت کا اقرار کرنے کے بیوی کی خوشنودی کے لیے اسے دیوی سے بہتر قرار دے کر دیوی کی توہین کی تھی۔ اس لیے وہ تمہاری بیوی کو ہلاک کرکے اپنے انتقام کی آگ بجھانا چاہتی تھی۔ وہ زہر جو تم اپنی بیوی کو حالت نوم میں دیا کرتے تھے وہ ان چند مصری نادر اشیا میں موجود تھا جو تمہیں خلیل کے ورثہ میں ملی تھی۔ لیکن تمہاری بیوی کی زندگی باقی تھی۔ تم اسے اپنے ساتھ مصر لے آئے۔ وہ اس زہر کا تریاق استعمال کرنے سےبچ گئی۔ اسی تگ و دو میں سال ختم ہوگیا۔ آج قربانی کی مقدس رات ہے لہٰذا تم جواں مردی سے قربانی کے واسطے تیار ہوجاؤ۔‘‘
عالم یاس میں میں نے سب باتیں سنیں، کبھی کبھی مجھے خیال آتا کہ میں کوئی خوفناک خواب دیکھ رہا ہوں۔ میری حالت سخت خراب ہو رہی تھی۔ گو میں زندہ تھا مگر مردوں سے بدتر۔ نوت نہایت خلوص و عقیدت سے اپنے کام میں مصروف تھا۔ صحرائی جھٹ ایک سنگِ جراحت کا پیالہ اور ایک پتھر کی چھری اٹھالایا۔ آہ یہ ویسا ہی پیالا اور ویسی ہی چھری تھی جیسا کہ میں خلیل کے گھر دیکھ چکا تھا۔ شدت خوف سے میں تشنج کے مریض کی طرح اکڑ کر رہ گیا۔
صحرائی نے چھری اس لاش کے ہاتھ میں دے دی اور پیالے کو میری گردن کے قریب لگادیا۔ لاش میرے قریب تر آگئی۔ حتی کہ اس کے کپڑے میرے ہاتھوں کو چھونے لگے۔ اس کا چھری والا ہاتھ آہستہ آہستہ میری گردن کی سیدھ پر اٹھا۔ میرے حواس جواب دینے لگے، کمرہ گھومتا ہوا دکھائی دینے لگا۔ میں نے مایوسی سے آنکھیں بند کرلیں۔
قریب تھا کہ میرے قلب کی حرکت بند ہوجائے۔ یکایک ایک زبردست دھماکا ہوا۔ دنادن! دنادن! کی آواز سے کمرے میں ایک خوفناک گونج پیدا ہوئی اور مجھ پر ایک پرسکون غنودگی طاری ہوگئی۔
کچھ دیر بعد جب میں اس مرگ نما غنودگی سے ہوشیا ر ہوا تو عمر آفندی اپنے رومال سے مجھے ہوا دیتا ہوا دکھائی دیا۔ میں گھبراکر اٹھ بیٹھا۔
کمرے میں بدستور شمعیں روشن تھیں۔ آگ کا آلاؤ جل رہا تھا مگر آدمی سب غائب تھے۔ قریب ہی صحرائی کی نعش پڑی تھی اور سنگِ جراحت کا پیالہ گر کر چور ہوچکا تھا۔ میں بے تحاشا چیخیں مارتا ہوا عمر آفندی سے چمٹ گیا۔ اس کی تسلی آمیز باتوں سے مجھے بہت کچھ ڈھارس ہوئی۔ میں نے اپنے حواس درست کرکے اطمینان سے اپےں گردوپیش دیکھا۔ آہ! شہ نشین کے قریب ایک ایسا نظارہ میری نظر سے گزرا کہ ایک دفعہ پھر اضطرابی کیفیت سے میری حالت غیر ہونے لگی۔ لیکن عمرآفندی نے مجھے سنبھال لیا۔
نوت اسی طرح شہ نشین کے سہارے بیٹھا تھا اور مریشار کی لاش اپنی باہیں اس کے گلے میں حائل کیے اس کی آغوش میں پڑی تھی۔ پتھر کی چھری نوت کی شہ رگ میں پیوست تھی اور خون کے بہتے ہوئے شراٹے لاش کے نیم وادھن میں کر رہے تھے۔ وہ دم توڑ رہا تھا۔
عمرآفندی کے آدمیوں نے اس لاش کو نوت کی آغوش سے علیحدہ کرنا چاہا۔ مگر اس نے اشارے سے روک دیا اور سسکتی ہوئی آواز میں کہنے لگا ’’مجھے اس سے جدا نہ کرنا۔ میں اس معبود کی آخری قربانی ہوں۔ آہ میں پہلے دن سے ہی اس کی محبت میں اسیر ہوگیا تھا۔ لیکن جان کے خوف سے آج تک اپنے عشق کا اظہار نہ کرسکا۔ میرا خیال تھا کہ یہ راز اس پر کبھی ظاہر نہ ہوگا۔ مگر وہ عالم الغیب تھی اس سے پردہ داری فضول تھی۔ آج میں اس کی عظمت و جبروت کی گواہی دیتا ہوں۔ وہ بلاشبہ دیوی تھی جس نے اپنے سچے عاشق کے دل کی ترجمانی کرکے اس کی قربانی قبول کی۔ اب میں خوشی کی موت مر رہا ہوں۔‘‘ یہ کہتے ہوئے اس کی آواز بند ہوگئی۔ وہ ختم ہوچکا تھا۔
عمرآفندی کے ایما پر اس کے آدمیوں نے شکستہ تابوتوں کی روغنی تختیوں کو جمع کرکے نوت اور مریستار کی لاشوں کو جلادیا اور راکھ بھسم ہوجانے پر جب ہم اس منحوس تہ خانے سے باہر نکلے تو صبح صادق کے نورانی پر توسے شب کی روسیاہی ہی دھل چکی تھی۔
کئی دن تک اس خوفناک واقعہ کا اثر میرے دل پر قائم رہا۔ رفتہ رفتہ جب میرے دل کو قرار ہواتو میں نے عمرآفندی سے بروقت امداد کے متعلق دریافت کیا۔ اس نے کہا جب تم مصر میں آئے تھے تو سعید نے مجھے ایک چٹھی لکھی تھی۔ جس میں اس نے مصری لاش کا ذکر کرکے لکھا کہ کہیں تم خود نسیمہ کو زہر نہ دے رہے ہو۔ سو اس کے علاج کے علاوہ اسے تم سے بچانے کی بہت کوشش کی گئی۔ چنانچہ اس طریق عمل سے وہ موت کے منہ سے بچ گئی ۔ مجھے سخت حیرت تھی کہ باوجود اتنی محبت کے تم یہ فعل کیوں کر رہے تھے اور مجھے یہ راز معلوم کرنے کی بہت خواہش تھی۔ کچھ دن بعد نسیمہ نے مجھے بتایا کہ تم اکثر راتوں کو اپنی خواب گاہ سے غائب ہوجاتے ہو۔ میں تمہاری نگرانی کرنے لگا۔ جس سے بہت جلد میں نے معلوم کرلیا کہ تمہیں نیند کی حالت میں چلنے پھرنے کا عارضہ لاحق ہے۔ اب یہ راز تو حل ہوچکا تھا۔ مگر تمہاری یہ حالت دیکھ کر مجھے بہت تشویش ہوئی اور تمہاری لاعلمی میں تمہارا علاج کرتا رہا۔ رفتہ رفتہ مجھے یہ بھی معلوم ہوا کہ تم ایک باد رفتار ناقہ کے انتظار میں سڑک پر کھڑے رہتے ہو۔ اور اکثر اوقات اس کے پیچھے اس قدر تیزی سے دوڑتے ہو کہ تمہارا تعاقب محال ہوجاتا ہے۔ اسی غرض سے میں نے چند برق رفتار گھوڑے خریدے جن پر میں تمہارا تعاقب کرکے دیکھ سکوں کہ تم کہاں جاتے ہو۔ چنانچہ قربانی کی رات جب تم ناقہ پر سوار ہوکر کہیں جارہے تھے تو میں نےاپنے دونوں سائیسوں کو پیچھے آنے کاحکم دے کر اپنے گھوڑے عوف پر تمہارا تعاقب کیا۔ ناقہ جادو کے اثر سے اس قدر تیز چل رہا تھا کہ تعاقب کرنا مشکل ہوگیا۔ تاہم میں گھنٹی کی آواز پر گھوڑے کو سرپٹ دوڑاتا ہوا وہاں تک پہنچ گیا۔
اتنےمیں میرے سائیس بھی مجھے آملےاور کافی دیرتک ہم لوگ دروازے کی تلاش میں اس غار کے اندر سرگردان رہے۔ آخرکار بڑی مشکلوں سے ہمیں ایک چور دروازے کا سراغ ملا اور جب ہم لوگ اندر داخل ہوئے تو معاملہ ایک خطرناک حدتک پہنچ چکا تھا۔ میں نے وقت کی نزاکت کااحساس کرتے ہوئے گولی چلادی جس سے صحرائی تو اسی دم مر گیا اور منتر پڑھنے والے بھاگ کھڑے ہوئے۔ اسی بدحواسی میں نوت کے ہاتھ سے بھی ساز گر پڑا۔
’’ساز اور منتر بند ہوتے ہی اس لاش کی شیطانی قوت بھی زائل ہوگئی۔ وہ نیورا کر نوت پر گر گئی اور اتفاق سمجھو یا حقیقت لاش کا سر اس کی چھاتی کے قریب جالگا اور اس طرح وہ لوت لا خون پینے میں کامیاب ہوگئی۔‘‘
اس واقعہ سے تقریباً ایک ماہ بعد ہم لوگ اپنے وطن کو واپس چلے آئے۔ اب زمانۂ قدیم کی معلومات کا خبط میرے دماغ سے نکل چکا تھا۔ چنانچہ گھر پہنچتے ہی میں نے پرانی معلومات کا وہ ذخیرہ جو کاغذات کی صورت میں جمع تھا اور وہ نادر اشیا جو خلیل کی وراثت میں مجھے ملی تھیں، نذرآتش کردیں۔