بلائے ناگہاں

حیدر میرا بچپن کا دوست تھا۔ ہم دونوں ایک ہی محلہ میں رہتے تھے او ر دونوں نے ایک ہی سکول میں تعلیم پائی تھی۔ سکول چھوڑنے کے بعد اس نے کٹھ کی تجارت اختیار کی اور اس تجارت کی وجہ سے اس کی بیشتر زندگی کافرستان میں گزری، اب وہ ایک دولت مند شخص کی حیثیت سے آرام و آسائش کی زندگی بسر کررہاتھا۔۔۔۔مگر باوجود اس آسودہ حالی کے اس کی زندگی غیر مطمئن معلوم ہوتی تھی۔ وہ ہر وقت کھویا کھویا سا رہتا۔ اسے کسی کام میں دلچسپی نہ تھی۔ وہ سوسائٹی سے متنفر تھا سوائے میرے کسی سے زیادہ میل جول نہیں رکھتا تھا۔ میں نے کئی دفعہ ارادہ کیا کہ اس کی افسردگی کا راز معلوم کروں مگر موقعہ نہ ملا۔ ایک دفعہ فصل کے موقعہ پر میرا اپنے حصہ داروں سے کچھ جھگڑا ہو گیا اور مجھے اپنے گاؤں جانا پڑا۔۔۔۔ وہاں جا کر میں زمینداری کی بندھنوں میں ایسا گرفتار ہوا کہ دو سال تک چھٹکارا نہ ہوا۔ اس عرصہ میں حیدر سے میری خط وکتابت جاری تھی۔ اس کے خطوں سے اکثر وحشت اور مایوسی کاجذبہ ٹپکتا تھا۔ دوسال بعد جب میں واپس آیاتو میں نے سنا کہ حیدر بالکل گوشہ نشین ہو گیا ہے۔
دو تین دن تو گھر کے معمولی کام کاج میں صرف ہوگئے۔ تیسرے دن شام کے قریب میں اس کے گھر گیا۔ میرا لڑکا میرے ہمراہ تھا۔ حیدر کی حالت دیکھ کر مجھے دلی صدمہ ہوا۔ وہ بالکل ہڈیوں کا ڈھانچہ بن رہا تھا۔ اس کا رنگ مٹیالا اور جلد بدنما طور پرخشک ہو رہی تھی۔ اس کی اندر کو دھنسی ہوئی آنکھوں سے خوف ہراس کی علامات ظاہرتھیں۔۔۔۔ مجھے دیکھ کر ایک مردہ سی مسکراہٹ اس کے پژمردہ ہونٹوں پر کھیل گئی۔ میں اسے دیر تک حیرت سے تکتا رہا۔ میری حالت سے آگاہ ہوکر وہ مری ہوئی آواز سے کہنے لگا ’’کیادیکھ رہے ہو؟‘‘میں خاموش رہا۔ وہ دوبارہ بولا ’’آؤ! تم نہیں جانتے میری زندگی کس عذاب میں ہے میں نے آج تک اپنا راز تم سے پوشیدہ رکھا۔ مگر اب زیادہ دیر تک یہ میرے دل میں پوشیدہ نہیں رہ سکتا۔ میں اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرناچاہتا ہوں‘‘۔
سلیم کمرے سے ملحقہ لائبریری میں رنگین پنسلوں سے تصویریں بنانے میں مصروف تھا۔ کمرے میں مکمل خاموشی تھی۔ حیدر کہنے لگا سکول چھوڑنے کے بعد میری دوستی ایک ایسے شخص سے ہوئی جو کافرستان میں کٹھ کی تجارت کرتا تھا۔ یہ شخص انتہائی نیک نفس اور دوست نواز تھا۔ وہ دنیا میں بالکل اکیلا تھا اور تجارت کاکام انجام دینے میں اسے بہت دقت ہوتی تھی۔ اس لیے اسے ایسے آدمی کی تلاش تھی جو اس کے ماتحت کافرستان کے علاقہ میں دورہ کرکے کٹھ فراہم کرنے میں اس کی مدد کرے۔۔۔۔ ان دنوں میری عمرصرف اٹھارہ برس کی تھی۔ میں بالکل ناتجربہ کار تھا تاہم اس نے مجھے دیانت دار اور محنتی پا کرتجارت میں حصہ دار بنالیا اورمیں نے اپنا کام اس قدرشوق اورمحنت سے کیا کہ سال کے اندر اندر ہماری تجارت چمک اٹھی۔۔۔۔انہی ایام میں ایک دفعہ میں اپنے کوہستانی ملازم کے ہمراہ دورہ کرتا ہوا رستہ بھول کر ایک غیر آباد علاقہ میں پہنچا۔ گو یہ علاقہ نہایت سرسبز تھا، میوے سے لدے ہوئے درخت ہماری خوراک کے لیے بکثرت موجود تھے اور پیاس بجھانے کو چپہ چپہ پر حیات بخش چشمے جاری تھے لیکن رات کو سرچھپانے کے لیے جگہ ملنی دشوار تھی۔۔۔۔ تمام دن ہم جنگلوں میں بھٹکتے رہے۔ حتیٰ کہ شام قریب ہو گئی۔ شکست خوردہ آفتاب دن بھرکی خجالت سے زرد ہو کر لیلائے شب کی سیاہ زلفوں میں منہ چھپانے لگا۔ جنگلی پرندے شوروغل مچاتے ہوئے اپنے گھونسلوں کے اردگردطواف کرنے لگے اور گھنے درختوں کی وجہ سے جنگل بے حد تاریک ہونے لگا۔۔۔۔ ہم اندھا دھند آگے بڑھتے گئے یکایک جنگل ختم ہوگیا۔
ہم تاریک فضا سے باہر نکلے تو افق کے دلکش مناظر سے ہماری آنکھیں روشن ہو گئیں۔ ہم ایک شاداب و زرخیز میدان کے کنارے کھڑے تھے۔ کہیں دور سے روشنی دکھائی دے رہی تھی ہم اس طرف بڑھے اور تھوڑی دیرمیں ایک جھونپڑی کے دروازے پر جاکھڑے ہوئے۔۔۔۔ جھونپڑی میں ہلکی ہلکی روشنی ہورہی تھی۔ دودکش سے دھوئیں کے یلغارے نکل رہے تھے اور بھنے ہوئے گوشت کی خوشگوار مہک اٹھ رہی تھی۔ میں نے ہچکچاتے ہوئے دستک دی۔ ایک خشک رو منحوس صورت شخص نے دروازہ کھولا۔ میں نے رات بسرکرنے کی درخواست کی ۔ اس نے ہم دونوں کو سر سے پاؤں تک گھور کر دیکھا پھر ایک خوفناک قہقہہ لگاتے ہوئے اندر آنے کا اشارہ کیا۔۔۔۔ اس خوفناک قہقہے سے میرادل دہل گیا۔ طرح طرح کے وسوسے اٹھنے لگے۔ مگر تھکان سے مجبور ہو کر چپ چاپ اس کے پیچھے ہولیا۔ جھونپڑی کی اندرونی حالت بہت ردی تھی۔ دیواریں دھوئیں سے سیاہ ہو رہی تھیں۔ ہر چیز پر سیاہی مائل گرد کی تہ جمی ہوئی تھی۔ اس نے ہمیں ایک شکستہ تخت پر بٹھایا اور خود ہمارے کھانے کے بندوبست میں مصروف ہوگیا۔ تھوڑی دیر میں اس نے بھنا ہوا گوشت اور مکی کی روٹیاں لاکر ہمارے سامنے رکھ دیں۔ کھانے سے فارغ ہو کر میرے ملازم نے میرا بسترہ ایک طرف لگا دیا مگرمیرا دل سونے کو نہ چاہتاتھا۔ مجھے اس منحوس صورت آدمی کی آنکھوں میں شقاوت مسکراتی دکھائی دیتی تھی۔ اس بدگمانی کے زیر اثر میرے دل میں ایک نامعلوم خطرہ پیداہوچکا تھا۔ میں اسی سوچ میں تھا کہ وہ قہوہ لے آیا۔ نیند کودور کرنے کے لیے میں نے خوب قہوہ پیا۔۔۔۔تھوڑی دیر کے بعد مجھے نیند کے جھونکے آنے لگے۔ میں نے چاہا کہ ملازم کو خبردار رہنے کی تاکید کرکے خود سوجاؤں مگردیکھا تو وہ پہلے ہی گہری نیند کے مزے لے رہاتھا۔ میں نے اسے آوازیں دیں۔ جھنجھوڑا مگر بے سود ۔ مجھ پر نیندکاغلبہ زیادہ ہورہا تھا۔ رفتہ رفتہ اردگرد کی چیزیں دھندلی نظر آنے لگیں۔ پھر مجھے کچھ ہوش نہ رہا۔۔۔۔ رات کو مجھے نہایت خوفناک خواب دکھائی دیئے۔ میں نے دیکھا کہ چند دیوزاد آدمی مجھے کندھے پر اٹھائے ہوئے کہیں جارہے ہیں۔یکایک میرے سرمیں سخت ٹیس اٹھی۔ ایک تشنجی کیفیت سے میرے پٹھے اینٹھنے لگے۔ دوران خون سرکی طرف زیاد ہ ہونے سے دماغ پھٹنے لگا۔ سخت تکلیف سے میری آنکھ کھل گئی۔ اف ! خدا کی پناہ! میں نے ایک ایسا بھیانک منظردیکھاکہ میراخون خشک ہوگیا۔ بدن کے روئیں سوئیوں کی طرح کھڑے ہوگئے اوردل ایک بڑے کلاک کی مانند ٹک ٹک کرنے لگا۔۔۔۔۔۔ آہ! میں ا یک تیرہ وتار ڈراؤنی غارمیں ایک لمبی سی چوبی میز پرچت پڑاہوا تھا۔ میری مشکیں کسی ہوئی تھیں۔ اور سرہانے کی طرف ایک زبردست الاؤ جل رہا تھا۔ دہکتے ہوئے انگاروں کی سرخ تھرکتی ہوئی روشنی میں دیواروں پر مہیب سائے ناچ رہے تھے۔غار دوزخ کی بھٹی کی طرح لال اور گرم تھی۔ سخت گرمی سے میرا سر چکرا رہا تھا۔ میزکے قریب ایک دیوزاد آدمی کھڑا تھا۔ جس کا بالوں سے بے نیاز سرایک پشاوری تربوز کی طرح بڑا تھا۔ اس کا سرخ چہرہ جس پرجلادوں کی طرح بڑے بڑے سیاہ لمبے گل مچھے تھے، انگاروں کی لال روشنی میں خون سے رنگا ہوا معلوم ہوتا تھا۔ وہ ہاتھ میں ایک لمبا شکاری چاقو پکڑے کسی کو کچھ احکام دے رہاتھا۔ انتہائی وحشت سے میری زبان حلق میں دھنس گئی اور سانس رک رک کر آنے لگی۔۔۔ اتنے میں ایک نسوانی آواز سنائی دی۔ جسے سنتے ہی سرخ چہرہ جلاد نے اپنا مضبوط ہاتھ اٹھایا اور چاقو سے میرے سرمیں گھاؤلگانے لگا۔ میں شدت خوف سے پہلے ہی نیم جان ہورہا تھا۔ زخموں کی تکلیف سے بے ہوش ہوگیا۔
مجھے ہوش آیا تو میں ایک صاف ستھرے کشادہ کمرے میں ایک آرام دہ بستر پر پڑا تھا۔ کمرے میں بالکل سکوت تھا۔ ایک طرف آبنوسی ڈیوٹ پررکھے ہوئے پیتل کے بڑے چراغ میں بھلپل جل رہا تھا جس کی کیف آور روشنی عطر کے قرابے لنڈھا رہی تھی۔ چاند کی حسین کرنیں کھلی کھڑکی سے داخل ہو کر فرش زمین پر لوٹ رہی تھیں۔ میرے سر اور گردن کے پٹھے اکڑے ہوئے تھے۔ رفتہ رفتہ مجھے سب واقعات یاد آنے لگے اور غار والا منظر آنکھوں کے سامنے پھرنے لگا میں نے گھبرا کر ادھرادھر نگاہ دوڑائی ۔ سرہانے کی طرف ایک سایہ سا دیکھ کر میری چیخیں نکل گئیں۔ فوراً کسی نے شفقت بھرا ہاتھ میرے سینے پررکھ کر ٹوٹی پھوٹی پشتو میں کہا طالع مند نوجوان تمہیں اپنی زندگی اور جوانی مبارک ہو۔ تمہاری اس طویل اور مسلسل غشی نے مجھے تمہاری زندگی سے مایوس کر دیا تھا۔ مگر آج آٹھ دن کے بعد تمہیں ہوش میں دیکھ کر بہت خوش ہوں۔ خدا کا شکر ہے کہ میری محنت ٹھکانے لگی۔ اب کچھ فکر نہیں۔ تم بہت جلد اچھے ہو جاؤ گے۔۔۔۔۔ دلجوئی کے الفاظ سن کر میں نے مطمئن نگاہوں سے اس کی طرف دیکھا وہ یک چالیس سالہ وجیہہ اور شکیل آدمی تھا۔ اس نیک دل انسان کی بڑھی ہوئی ہمدردی اور ان تھک خدمت گزاری سے میری صحت بہت جلد عود کرنے لگی۔ اور میں بتدریج صحت یاب ہوگیا۔۔۔۔ دوران علالت میں مجھے معلوم ہوا کہ میرے محسن کا نام جواں بخت ہے اور وہ ایک قبیلے کا سردارہے۔ میرے استفسار پر جواں بخت نے مجھے ایک عجیب و غریب داستان سنائی۔ اس نے کہا ’’اس علاقہ میں کئی ایک ایسی وادیاں ہیں جو ہنوز دنیا کی نظروں سے پوشیدہ ہیں۔ ہرایک وادی کا راستہ اتنا خفیہ اور پراسرار ہے کہ کوئی اجنبی ان میں داخل نہیں ہوسکتا اور ہروادی میں جداجداقبیلے آباد ہیں۔ چنانچہ یہ وادی بھی جس میں میرا قبیلہ بھی آباد ہے اسی طرح کی ایک پوشیدہ وادی ہے۔ اور یہاں سے ایک دن کی مسافت پر ایک اور ایسی ہی پوشیدہ وادی ہے جس میں ایک رہزنوں کا قبیلہ آباد ہے۔ ان کی سردار ایک عورت ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جس نے جوانی کا جوہر ایجاد کیاہے۔ اٹھارہ سے پچیس سال تک کی عمر کے نوجوانوں کے سرسے وہ اس جوہر کو کیمیاوی طریقے سے حاصل کرتی ہے اور اس جوہر کے اثر سے باوجود سن رسیدہ ہونے کے ابھی تک جوان اورنوخیز نظر آتی ہے۔ اس جوہر کو حاصل کرنے کے لیے اس نے اپنے ملازم مختلف علاقوں میں اس غرض سے چھوڑ رکھے ہیں کہ وہ کسی طرح نوجوانوں کو اس کے لیے فراہم کریں۔۔۔۔ ان اسیرنوجوانوں کواس کے ملازم منشیات سے بے ہوش کر کے خفیہ غاروں میں لے جاتے ہیں۔ جہاں وہ عورت انکے سروں سے جوہر کشید کرتی ہے‘‘۔میں نے پوچھا ’’آپ کو یہ باتیں کیسے معلوم ہوئیں؟‘‘ اس نے کہا ’’جوانی میں مجھے بھی ایک دفعہ اس کے آدمی پکڑ کر لے گئے تھے۔ لیکن میرے قبیلے کو اس غار کا کسی طرح کھوج مل گیا اور اس نے شب خون مار کر مجھے عین اس وقت چھڑایا جب کہ ایک سرخ چہرہ جلاد میرے سرکو زخمی کررہا تھا۔۔۔۔۔ ‘‘جواں بخت نے کلاہ اتار کر اپنا سرمجھے دکھایا جس پرجابجا بڑے بڑے سفید داغ تھے۔ پھرکہنے لگا ’’میں نے اب اس علاقہ میں اپنے جاسوس چھوڑ رکھے ہیں۔ جب کوئی نووارد ان کے ہتھے چڑھ جاتا ہے تومجھے اطلاع مل جاتی ہے اور میں چھاپہ مار کر ان نوجوانوں کو بچالیتاہوں۔ مگر وہ عورت احتیاطاً غاریں بدلتی رہتی ہے۔ مگرمیں ہمیشہ کھوج لگانے میں کامیاب ہو جاتا ہوں چنانچہ جس دن رہزن تمہیں اس ڈائن کے پاس لے جارہے تھے۔ مجھے جاسوسوں نے مطلع کیا۔ جس پرمیں نے کئی ایک غاروں میں تمہیں تلاش کیااور آخر کار ایک غار پر حملہ کر کے تمہیں نجات دلوائی۔ میں کئی دفعہ اس عورت پر حملہ کرچکا ہوں مگروہ ہر دفعہ میرے ہاتھ سے بچ کر صاف نکل جاتی ہے۔ کاش مجھے اس وادی کارستہ معلوم ہوجائے اور میں ہمیشہ کے لیے دنیا کو اس ڈائن کے وجود سے پاک کردوں۔
میں تقریباً چھ ماہ جواں بخت کی وادی میں مقیم رہا۔ کئی دفعہ واپسی کا ارادہ کیا مگر اس کی بے لوث محبت میرے لیے زنجیر پا ہو گئی۔ چھ ماہ بعد میں نے دل کڑا کر کے اس سے اجازت طلب کی۔ وہ کچھ سوچ کربے دلی سے کہنے لگا تم شوق سے جاسکتے ہو مگر تمہیں یہاں سے آنکھوں پر پٹی باندھ کر جانا ہوگا۔ میں نے گھبراکرکہا ’’کیوں؟‘‘ وہ لجاجت سے بولا ’’عزیز من تمہیں پہلے بتا چکا ہوں کہ یہ ایک پوشیدہ وادی ہے۔ اس لیے سوائے اپنے قبیلے کے کسی اور کو ان خفیہ راستوں کا راز بتانا ہمارے اصول کے خلاف ہے۔ اس اصول میں بے قاعدگی کی وجہ سے نقصان کا خطرہ ہے۔۔۔۔۔کیونکہ اگرایک قبیلے کو دوسرے قبیلے کی وادی کاراستہ معلوم ہوجائے تووہ شب خون مار کروادی میں گھس آتے ہیں ا ور قبیلے کو تباہ و برباد کردیتے ہیں۔ گو مجھے تم پر کوئی بدگمانی نہیں مگر اپنے قبیلے کے خلاف کچھ نہیں کرسکتا۔ ان کے قائم کردہ اصول کی خلاف ورزی میری طاقت سے باہر ہے۔ میں نے افسردگی سے کہا ’’تو پھر میں یہاں کبھی نہ آسکوں گا؟‘‘ ’’میرے خیال میں کبھی نہیں‘‘۔ اس نے کہا۔ میں نے کہا ’’لیکن آپ کی ملاقات‘‘۔ وہ میری بات کاٹ کر بولا ’’یہ بھی تقریباً ناممکن ہے‘‘۔۔۔۔۔۔ اس ناگوار گفتگو نے مجھے مایوس کردیا۔ مجھے اس سے دلی الفت تھی۔ اس لیے اس کے فیصلے سے میرے دل پر گہری چوٹ لگی اورمیرے آنسو جاری ہوگئے۔ وہ رویا تو نہیں مگر اس کے چہرے کا اڑتاہوا رنگ اس کے اضطراب کا شاہدتھا۔ وہ گاؤ تکیے پر کہنیاں ٹیکے کچھ سوچ رہا تھا۔ اس کے شگفتہ چہرے پر سماوی تجلیاں نمایاں تھیں۔۔۔۔ کامل وقفہ کے بعد اس نے سر اٹھایا اور اپنی نکھری ہوئی منور پیشانی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے نہایت ملامت سے کہنے لگا ’’ہاں ایک صورت ہو سکتی ہے اگر تم میرے مذہبی طریقے پر قسم اٹھا کر میری برادری میں شامل ہو جاؤ تو میرے قبیلے کو اطمینان ہو جائے گا‘‘۔ میں نے ان شرائط کو فوراً منظور کر لیا۔۔۔۔۔ دوسرے دن جواں بخت نے اپنے قبیلے کی دعوت کی اور سب کے سامنے ایک نیم عریاں کاہن نے جواں بخت کی چھنگلیا سے چند قطرے خون نکال کر ایک طشتری میں ٹپکائے، پھر اپنی خاص زبان میں اس خون پر مجھ سے قسم لی گئی جس کا مفہوم یہ تھا کہ اگرمیری وجہ سے جواں بخت کو کسی قسم کی تکلیف پہنچے توروحیں مجھے بھی وہی سزا دیں۔ اس کے بعد نیم عریاں کاہن کی ہدایت کے بموجب میں نے اس مقدس خون کوچکھا اور اس رسم کے اختتام پرجواں بخت نے مجھے گلے سے لگا لیا۔ اس کے بعد قبیلے کے سب لوگ یکے بعد دیگرے میرے گلے ملے اور خوشیاں مناتے ہوئے رخصت ہوگئے۔ اگلے دن مجھے وادی کا راز بتادیاگیا اور جاتی دفعہ جواں بخت نے تاکید کی کہ جب تک میری عمر ۲۵ برس سے تجاوز نہ کر جائے اس علاقہ میں اکیلا یا کسی اجنبی کے ہمراہ سفر نہ کروں ۔ جواں بخت کے خاص آدمی مجھے اس جگہ پہنچا گئے جہاں میرے حصہ دار کا ہیڈکوارٹر تھا۔۔۔۔۔ یہ خطہ جواں بخت کی وادی سے دو سو میل کے فاصلے پر تھا۔ میراحصہ دار جو میری زندگی سے مایوس ہو چکا تھا مجھے زندہ سلامت پا کر بہت خوش ہوا۔۔۔۔ جواں بخت کی دوستی سے میری تجارت کو بہت فائدہ پہنچا۔ کیونکہ جواں بخت کی وادی میں کٹھ بہت کثرت سے پائی جاتی تھی۔اس کے آدمی ہمیشہ کٹھ پہنچاتے رہتے انہیں آدمیوں کے ساتھ میں بھی ہر دوسرے تیسرے مہینے جواں بخت سے ملنے جایاکرتا۔ اسی طرح کئی سال گزرگئے۔ میری عمر ۲۵ برس سے تجاوز کر گئی۔ اب میں بغیر محافظوں کے بے کھٹکے اس علاقہ میں سفر کرنے لگا۔۔۔ ایک دفعہ میں جواں بخت کو ملنے جارہا تھا ، راستے میں ایک چھوٹی سی کوہستانی سرائے میں میری ایک خوش پوش مسافر سے ملاقات ہوئی یہ شخص بڑا باتونی تھا۔ باتوں باتوں میں اس نے ذکر کیا کہ فلاں راستے سے آتے ہوئے کئی دفعہ اس ندی کے کنارے جو نشیبی گھاٹی کے عمق میں ہے اس نے پریوں کو گاتے دیکھاہے۔ اس وقت تو میں نے اسے جھٹلادیا۔ مگر دوسرے دن سفرکرتے ہوئے راستے میں مجھے اس ندی کا خیال آیا جو یہاں سے زیادہ دور نہ تھی۔میں نے گھوڑا اس راستے پر ڈال دیا۔۔۔۔۔ ندی کے کنارے گیا تو کہیں دور پار سے ہلکی ہلکی دلکش آواز جو نسیم بہارکی نرم رو لہروں پر مستی بکھیر رہی تھی۔ سن کر میرے دل میں گدگدی پیداہونے لگی۔ میں نے گھوڑا آگے بڑھا دیا۔ برساتی ندی میں پانی بہت کم تھا۔ میں بآسانی اسے عبور کرکے پار کے گھنے جنگل میں داخل ہوگیا۔ اب گیت کہیں قریب ہی سنائی دیتے تھے۔۔۔۔ یہ نشاط انگیز راگنی مجھے اپنی طرف اس طرح کھینچ رہی تھی جس طرح مقناطیس لوہے کو کھینچتا ہے۔ آگے بڑھ کر معلوم ہوا کہ جنگل کے وسط سے کاٹ کر چھوٹا سامیدان بنایا گیا ہے اور اس میدان میں ایک خوشنما جھونپڑی ہے جس کے اردگرد خوش رنگ پھلواڑیوں کی بساط بچھی ہوئی ہے۔ قریب گیا تو فرط حیرت سے میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔۔۔۔ سوسن کی پھلواڑی میں ایک پری جمال حسینہ ایک پہاڑی ساز پردلکش لے میں گیت گارہی تھی اور چند کوہستانی لڑکیاں پاؤں میں گھنگرو باندھے اس کے سامنے ناچ رہی تھیں۔ اس حسینہ کو دیکھ کر میں پھڑک گیا۔ اس کی بڑی بڑی خوشنما صدفی آنکھوں سے ایک ایسا کیف کا سیلاب امڈ رہا تھا۔ جس کی تیز رو میں میرے ہوش و حواس تک بہہ گئے۔۔۔ مجھے دیکھ کر انہوں نے راگ رنگ ختم کر دیا ۔ حسینہ نے مجھے بلا کر بڑے اخلاق سے اپنے قریب بٹھایا اور ٹوٹی پھوٹی پشتو میں باتیں کرنے لگی ۔جب میرے حواس قدرے درست ہوئے تو میں نے اس حسینہ وغیرہ کا نام دریافت کیا۔ کہنے لگی میرا نام مہ لقاہے۔ میں ایک کوہستانی رئیس کی لڑکی ہوں۔ والدین کے انتقال پر میرادل ٹوٹ چکا ہے۔ یہ جگہ کبھی میرے باپ کی شکارگاہ تھی۔ یہاں اپنی کنیزوں کے ساتھ زندگی کے دن پورے کر رہی ہوں۔
میں نے تمام دن اس حسینہ کی صحبت میں گزارا۔ خوشی کے لمحے چٹکیوں میں گزرجاتے ہیں۔ حتیٰ کے دن کی ڈھلتی چھاؤں وقت کی رفتار کا پتہ دینے لگی۔ مہ لقا سے رخصت ہو کر جواں بخت کی وادی کی طرف ہولیا۔ میں ابھی تک محبت کی چاشنی سے نا آشناتھا۔ آج پہلی بار میں نے محسوس کیا کہ میں اپنا دل اس لڑکی کو دے چکا ہوں۔ جواں بخت کی ملاقات کے بعد میں اپنے ڈیرے پرواپس آیاتو مہ لقا کی جدائی دن بدن مجھے شاق گزرنے لگی۔ بہت کوشش کی کہ اس کو بھول جاؤں مگردل نہ مانتا او ر آخرکار اپنے کاروبار سے بددل ہوکر زیادہ ترجواں بخت کے پاس رہنے لگا۔ جواں بخت میری اس تبدیلی پر متعجب تھا لیکن میں نے بڑی خوش اسلوبی سے اپنے عشق کاراز اس سے چھپائے رکھا۔۔۔۔ مہ لقا کی جھونپڑی جواں بخت کی وادی سے کچھ زیادہ دور نہ تھی۔ اس لیے اکثر اس سے ملاقات ہوتی رہتی تھی۔ وہ اکثر جائے رہائش دریافت کیا کرتی ۔ مگرمیں نے کبھی اس سے جواں بخت کاذکرنہ کیا۔ اسے ہمیشہ اپنے ڈیرے کا پتہ دیتا جو میرے کاروبار کا مرکز تھا۔ یہ سن کر وہ بدگمانی سے منہ پھیرلیا کرتی۔ کیونکہ وہ ڈیرا یہاں سے تقریباً دوسو میل کے فاصلے پر تھا۔۔۔۔ ایک دن جب کہ میں اسے اپنی محبت کا یقین دلارہاتھا وہ بے اعتباری سے کہنے لگی ’’تمہاری محبت کا میں کیسے یقین کرسکتی ہوں جب کہ تم اپنی جائے رہائش تک مجھ سے چھپا رہے ہو‘‘۔ندامت سے جھٹ بے سمجھے بوجھے میرے منہ سے نکل گیا’’دوسرے کا راز میں نہیں بتاسکتا‘‘۔ میرے اس جواب سے وہ اپنی حسین آنکھوں میں آنسو بھر کر بولی ’’آہ آپ مجھے اس قدر ذلیل سمجھتے ہیں ۔ کیا میری ذات سے کسی کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے‘‘۔۔۔۔درحقیقت آنسو عورت کا زبردست ہتھیار ہے۔ جسے دیکھ کر مضبوط سے مضبوط ارادے کا مرد بھی زیرہوجاتاہے۔ آہ، میں بھی ان صدفان گوہربار۔۔۔۔ کودیکھ کر بے تاب ہو گیا اور ان خوشنما آنسوؤں نے مجھے مغلوب کر لیا۔ افسوس میں نے اپنا مقدس عہد توڑ کر اسے اس وادی کاراز بتا دیا۔
رات کسی بدعہد گنہگار کے دل کی طرح تاریک تھی۔ جس کی نحوست سے کائنات دھواں دھار ہورہی تھی۔ تیسری تاریخ کا نیا چاند افق کی تاریک گہرائیوں میں کھو چکا تھا۔ ستارے سیاہ بادلوں میں گم ہوچکے تھے۔ تمام دنیا ایک کالے دیو کی مٹھی میں بند معلوم تھی۔ جواں بخت اپنے کمرے میں گہری نیند سورہا تھا۔ مگر میری آنکھوں میں نیند مفقود تھی۔ ایک نامعلوم خطرہ مجھے قریب تر معلوم ہو رہا تھا۔ کسی مبہم خوف سے میرا دل دھڑک رہا تھا۔ میں جہنمی اذیت محسوس کرتے ہوئے اپنے کمرے میں بے چینی سے چکرا رہا تھا۔۔۔۔۔ آدھی رات کے قریب یکایک ایک گرجدار آواز سے تمام وادی گونج اٹھی۔ اس پرہول آواز سے میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ آہ یہ اس مہیب نقارے کی آواز تھی جس پرخطرے کے وقت چوٹ پڑتی تھی۔ خطرے کے الارم پر تمام قبیلہ بیدار ہوگیا۔ جواں بخت کے گھر میں کھلبلی مچ گئی۔ اس نے نہایت عجلت سے ہتھیار لگائے اور مقابلے کے لیے تیار ہوگیا۔۔۔۔ یک دم رہزنوں کا ایک زبردست گروہ جواں بخت کے محل پر ٹوٹ پڑا۔ وہ کمال بہادری اور جوانمردی سے لڑا مگر رہزنوں کے ٹڈی دل کے سامنے اس کی پیش نہ گئی۔ وہ مجروح ہو کر گر پڑا۔ رہزنوں نے اس کے ساتھ ہم سب کی مشکیں کس لیں اور ہمیں برق رفتار گھوڑوں پر لاد کر وادی سے نکال لائے۔۔۔۔ ابھی وہ وادی سے نکلے ہی تھے کہ جواں بخت کا باقی قبیلہ تعاقب کرتا ہوا آپہنچا۔ چند میل کے فاصلے پر دونو ں لشکر آپس میں گھتم گتھا ہو گئے ادھر میدان کارزار گرم ہورہا تھا۔ادھرہم قیدیوں کوایک غار میں پہنچا دیا گیا جس میں الاؤ جل رہا تھا۔ اور ایک بھپرے ہوئے شیر کے پنجرے کے قریب ایک عورت کھڑی تھی۔اس عورت کو دیکھ کر میں حیرت و استعجاب سے اچھل پڑا آہ وہ مہ لقا تھی۔۔۔۔ وہ غصے سے دانت پیس رہی تھی۔ حالت غیظ میں اس کی آنکھوں سے چنگاریاں نکل رہی تھیں۔ ایک کونے میں وہی خوش پوش مسافر کھڑا تھا جو کبھی مجھے سرائے میں مل چکا تھا۔ جس نے مہ لقا کے اشارہ ابرو پر جواں بخت کی مشکیں کھولیں اور اسے خوفناک شیرکے پنجرے میں ڈال دیا۔ مہیب شیرنے آناً فاناً جواں بخت کو اپنی مضبوط رانوں میں دبوچ کر ہلاک کردیا۔ عین اسی وقت رہزنوں کے لشکر میں بھاگڑ پڑ گئی اور حملہ آور ماردھاڑ کرتے ہوئے غارکے قریب پہنچ گئے۔ خطرے کو بھانپ کر مہ لقا فوراً غار سے باہر نکلی اور اپنی جماعت سمیت جنگل میں غائب ہوگئی۔ حملہ آور جب غار میں داخل ہوئے تو انہیں جواں بخت کاحسرت ناک انجام دیکھ کر ازحد صدمہ ہوا۔ اس کی لاش واپس وادی میں لائی گئی۔ جہاں نہایت احترام سے اسے سپرد خاک کیا گیا۔ چالیس دن تک اس کا قبیلہ سوگ مناتارہا۔ آخر چالیسویں کی رسوم پر جب کہ تمام قبیلہ جمع تھا۔ نیم عریاں کاہن نے کہا کہ ’’میں یہ نہیں جاننا چاہتا کہ تم میں سے غدارکون ہے۔ لیکن تمہیں یہ بتادینا چاہتا ہوں کہ غدار سزا سے کبھی نہیں بچ سکتا۔ تم لوگ مقدس خون پر جواں بخت سے وفاداری کی قسم اٹھا چکے ہو اور یہ کوئی معمولی چیز نہیں ۔ جواں بخت کی عمر اس وقت پچاس سال کے قریب تھی۔ اس لیے پچاس کی عمر میں غدار پر اس مقدس قسم کی لعنت پڑے گی۔ اور وہ شیر کے ہاتھوں ہلاک ہوگا۔ ‘‘ نیم عریاں کاہن کے اس اعلان سے سب کے دل دہل گئے۔۔۔ کاہن کے ان الفاظ کا مجھ پر خاص اثر ہوا۔ حوصلہ کر کے دل کو برقرار رکھا اور دوسرے دن اپنے ڈیرے کی طرف واپس ہوا۔ میں مجرم تھا ۔ میرا سکون قلب رخصت ہوچکا تھا۔ اب تجارت میں بھی میرا دل نہ لگا۔۔۔۔۔ میں تجارت چھوڑ کر اپنے دیس چلا آیا۔ چونکہ جواں بخت کی بدولت میں نے بے شمار دولت کمائی تھی۔ میں امیرانہ زندگی بسر کرتارہا۔ لیکن میرا دل کبھی مطمئن نہ ہو سکا۔ اس نیم عریاں کاہن کے الفاظ ہمیشہ میرے کانوں میں گونجتے رہے۔ اب جس دن سے میرا پچاسواں سال شروع ہوا ہے خوف سے مجھے زندگی وبال ہو گئی ہے۔ رات کو شیروں کے دھاڑنے کی آوازیں آتی رہتی ہیں۔ شیروں کے خوفناک سائے دیواروں پر متحرک دکھائی دیتے ہیں۔ اکثر ملک الموت کے سرد پاؤں کی چاپ محسوس کرتا ہوں‘‘۔روحیں میرے اردگرد منڈلاتی رہتی ہیں۔ جواں بخت کی کفن پوش لاش مجھے بلاتی ہے اور اسی خوف سے گوشہ نشین ہورہا ہوں‘‘۔۔۔۔حیدر کی داستان سن کر میں نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا کہ تمہیں وہم ہو گیا ہے ورنہ ایسی قسمیں کچھ حقیقت نہیں رکھتیں۔ اور نہ تم نے جان بوجھ کر غداری کی۔ایسی فضول قسموں کا خیال نہ کرو۔ یہاں شہر میں شیر کہاں سے آئے گا۔ میں بہت دیر تک اسے سمجھاتا رہا۔ بارہ بجے کے قریب میں اٹھا۔ میرا خیال تھا کہ سلیم لائبریری میں سورہا ہوگا۔۔۔۔ میں لائبریری کی طرف گیا تووہ کرسی پربیٹھا مسکرارہا تھا۔ مجھے دیکھ کر کہنے لگا۔ ابا میں نے چچا کی تمام باتیں سنی ہیں۔ وہ بہت ڈرپوک ہے۔ میں نے اسے آہستہ سے ڈرتے ہوئے کہا سلیم ایسا نہیں کہا کرتے۔ وہ شوخی سے بولا وہ درحقیقت بہت ڈرپوک ہے ۔ دیکھو میں نے اسے ڈرانے کے لیے دیوار پر کیا بنایا ہے۔۔۔۔ میں نے دیوار کی طرف دیکھا سلیم نے اس پر اپنی رنگین پنسل سے ایک بہت بڑے شیرکی تصویر بنائی تھی۔ تصویر کو دیکھ کر میں بے اختیار ہنس دیا او راسے ساتھ لے کرباہر نکل آیا۔
چونکہ رات کو میں دیر سے سویا تھا۔ اس لیے صبح دیر سے آنکھ کھلی تھی۔ ابھی میں بستر میں ہی تھا کہ حیدر کی موت کی خبر پہنچی۔ اسے رات کو کسی درندے نے ہلاک کر دیا تھا۔ میں اس وقت حیدر کے مکان پرپہنچا۔ وہاں پولیس جمع تھی۔ حیدر کی لاش بستر پر نہایت ابتر حالت میں پڑی تھی۔ اس کی شاہرگ کے قریب ایک بہت بڑا گہرا زخم تھا اور کسی درندے کے خون آلود پنجے بسترکی سفید چادر پر صاف نمایاں تھے۔۔۔۔ میں سراسیمگی سے آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا ہوا لائبریری میں جا نکلا۔
اچانک مجھے سلیم کی بنائی ہوئی تصویر کا خیال آیا۔ مگردیوار کی طرف دیکھ کر میرے اوسان خطا ہو گئے۔
سلیم کی بنائی ہوئی شیر کی تصویر دیوارسے غائب تھی۔