مرحلے آئے رہ عشق میں دشوار کئی
مرحلے آئے رہ عشق میں دشوار کئی
میں نے اک چاند کے دیکھے ہیں طلب گار کئی
وحشت رم تھی طبیعت میں غزالوں جیسی
یوں تو آتے ہی رہے راہ میں چھتنار کئی
ہوں وہ تصویر جو اب تک ہے نہاں رنگوں میں
یوں تو سنتے ہیں کہ ہیں شہر میں فن کار کئی
زیست کرنا بھی ہوا چومکھی لڑنا گویا
اپنی ہی ذات سے بھی ہوتے ہیں پیکار کئی
چشم بینا ہو پرکھ ہو تو نظر آئیں گے
ہفت اقلیم لئے پھرتے ہیں نادار کئی
سر پہ سورج تھا زمیں سخت اکیلی تھی میں
سائے میں پہنچی تو تھے ہمدم و دل دار کئی
منحرف چارہ گری سے ہوا ایماں میرا
دل دکھا جاتے ہیں کچھ اور بھی غم خوار کئی