صبا میں تھا نہ دل آویزیٔ بہار میں تھا

صبا میں تھا نہ دل آویزیٔ بہار میں تھا
وہ اک اشارہ کہ اس چشم وضع دار میں تھا


گزر کچھ اور بھی آہستہ اے نگار وصال
کہ ایک عمر سے میں تیرے انتظار میں تھا


ہوائے دہر کی زد میں بھی آ کے بجھ نہ سکی
بلا کا حوصلہ اک شمع رہ گزار میں تھا


ہم اپنی دھن میں چلے آئے جانب منزل
پلٹ کے دیکھا تو اک کارواں غبار میں تھا


ملا تو پھول کھل اٹھے تھے شاخ مژگاں پر
جدا ہوا تو لہو چشم اشکبار میں تھا


تجھے پکار کے چپ ہو گئے ہیں دیوانے
بس ایک نعرۂ مستانہ اختیار میں تھا


اب اک کرن بھی نہیں نیم وا دریچے میں
خوشا وہ دن کہ کوئی میرے انتظار میں تھا


ہوائے کم نگہی نے بجھا دیا ورنہ
میں وہ چراغ کہ روشن حریم یار میں تھا


تری نگاہ سے اوجھل سہی مگر محسنؔ
خزاں کا عکس بھی آئینۂ بہار میں تھا