سب کو وحشت ہے مری وحشت کے ساماں دیکھ کر
سب کو وحشت ہے مری وحشت کے ساماں دیکھ کر
چاک داماں دیکھ کر چاک گریباں دیکھ کر
بے خبر کانٹوں سے تھا اہل محبت کا شعور
پاؤں رکھنے تھے زمین کوئے جاناں دیکھ کر
اللہ اللہ جذبۂ الفت کی معجز کاریاں
وہ پریشاں ہو گئے مجھ کو پریشاں دیکھ کر
یاد آیا پھر مجھے افسانۂ طور و کلیم
اک تجلی سی ترے عارض پہ رقصاں دیکھ کر
چارہ گر اب مجھ سے میری لذت ایذا نہ پوچھ
خندہ زن ہوتے ہیں زخم دل نمک داں دیکھ کر
ہے محبت کا اگر دونوں طرف یکساں اثر
وہ پریشاں کیوں نہیں مجھ کو پریشاں دیکھ کر
اس میں مضمر ہیں بہت نغمے حیات عشق کے
چھیڑ مضراب جنوں ساز رگ جاں دیکھ کر
اس جنوں کا چارہ گر اب اور ہی کچھ کر علاج
اور وحشت بڑھ چلی ہے کنج زنداں دیکھ کر
وا نہیں ہوتا لب شکوہ سر محشر رئیسؔ
اپنے سر پر خنجر قاتل کا احساں دیکھ کر