ساتھ ہو کوئی تو کچھ تسکین سی پاتا ہوں میں
ساتھ ہو کوئی تو کچھ تسکین سی پاتا ہوں میں
تیرے آگے جا کے تنہا اور گھبراتا ہوں میں
سامنے آتے ہی ان کے چپ سا ہو جاتا ہوں میں
جیسے خود اپنی تمناؤں سے شرماتا ہوں میں
اک مسلسل ضبط ہی کا نام شاید عشق ہے
اب تو نظروں تک کو آنکھوں ہی میں پی جاتا ہوں میں
دیکھ سکتے کاش تم میری تمناؤں کا جشن
جب انہیں جھوٹی امیدیں دے کے بہلاتا ہوں
میرے پیروں کو ہے کچھ روندی ہوئی راہوں سے بیر
جس طرف کوئی نہیں جاتا ادھر جاتا ہوں میں
اک نگاہ لطف آتے ہی وہی ہے حال دل
سب پرانے تجربوں کو بھول سا جاتا ہوں میں
یہ مرے اشک مسلسل بس مسلسل اشک ہیں
کون کہتا ہے تمہارا نام دہراتا ہوں میں
شام غم کیا کیا تصور کی ہیں چیرہ دستیاں
ہاں تمہیں بھی تم سے بن پوچھے اٹھا لاتا ہوں میں
کاروبار عشق میں دنیا کی جھوٹی مصلحت
مجھ کو سمجھاتے ہیں وہ اور دل کو سمجھاتا ہوں میں
ساتھ تیرے زندگی کا وہ تصور میں سفر
جیسے پھولوں پر قدم رکھتا چلا جاتا ہوں میں
رنج انساں کی حقیقت میں تو سمجھا ہوں یہی
آج دنیا میں محبت کی کمی پاتا ہوں میں
میرے آنسو میں خوشبو میرے ہر نالہ میں راگ
اب تو ہر اک سانس میں شامل تمہیں پاتا ہوں میں
اب تمنا بے صدا ہے اب نگاہیں بے پیام
زندگی اک فرض ہے جیتا چلا جاتا ہوں میں
ہائے ملاؔ کب ملی خاموشی الفت کی داد
کوئی اب کہتا ہے کچھ ان سے تو یاد آتا ہوں میں