سامان فراغ جل رہا ہے
سامان فراغ جل رہا ہے
صحرا ہو کہ باغ جل رہا ہے
ہے شاخ نہال پر سمیٹے
بلبل ہو کہ زاغ جل رہا ہے
ہاتھوں میں دہک رہا ہے پیالہ
ہونٹوں میں ایاغ جل رہا ہے
جو فصل جنوں میں کھل رہا تھا
وہ قرعۂ داغ جل رہا ہے
وحشت بھی فسون شترک ہے
دل ہو کہ دماغ جل رہا ہے
پھر بھی ہے چہار سو اندھیرا
صدیوں سے چراغ جل رہا ہے