صاحب مہر و وفا ارض و سما کیوں چپ ہے
صاحب مہر و وفا ارض و سما کیوں چپ ہے
ہم پہ تو وقت کے پہرے ہیں خدا کیوں چپ ہے
بے سبب غم میں سلگنا مری عادت ہی سہی
ساز خاموش ہے کیوں شعلہ نوا کیوں چپ ہے
پھول تو سہم گئے دست کرم سے دم صبح
گنگناتی ہوئی آوارہ صبا کیوں چپ ہے
ختم ہوگا نہ کبھی سلسلۂ اہل وفا
سوچ اے داور مقتل یہ فضا کیوں چپ ہے
مجھ پہ طاری ہے رہ عشق کی آسودہ تھکن
تجھ پہ کیا گزری مرے چاند بتا کیوں چپ ہے
جاننے والے تو سب جان گئے ہوں گے علیمؔ
ایک مدت سے ترا ذہن رسا کیوں چپ ہے