سائے کی امید تھی تاریکیاں پھیلا گیا
سائے کی امید تھی تاریکیاں پھیلا گیا
جو شجر پھوٹا زمیں سے بیج ہی کو کھا گیا
کیا گلہ تجھ سے کہ گلشن کا مقدر ہے یہی
ابر گھر کر جب بھی آیا آگ ہی برسا گیا
اب کناروں سے نہ مانگے قطرے قطرے کا حساب
کیوں سمندر کی طرف بہتا ہوا دریا گیا
میری سیرابی بھی میری تشنگی سے کم نہ تھی
میں مثال ابر آیا صورت صحرا گیا
حسن کے ہم راہ چلتا تھا جلوس تشنگاں
عشق تنہا دہر میں آیا تھا اور تنہا گیا
محسنؔ احساں کسی بادل کا ٹکڑا ہے کہ جو
ایک لمحے کے لیے آیا گھرا برسا گیا