روئے خنداں رگ جاں دیدۂ گریاں جیسے
روئے خنداں رگ جاں دیدۂ گریاں جیسے
قفس رنگ ہے یہ عالم امکاں جیسے
نشۂ شعر اڑائے لیے جاتا ہے مجھے
جیسے رہوار صبا تخت سلیماں جیسے
آرزو ہی سے ہے ہنگامۂ عالم سارا
آرزو ہی سے ہے دل طفلک ناداں جیسے
آنچ بھی آتی ہے خوش پیرہنی سے اکثر
کہیں روئیدگیٔ شعلہ ہو پنہاں جیسے
شام تنہائی کلید در نظارا ہے
جیسے مژگان سیہ ابروئے جاناں جیسے
حرف سادہ ورق نم سخن خود رفتہ
دل ہے یا میر تقی میرؔ کا دیواں جیسے
بے روا بے سر و پا ایک الم ناک صدا
زندگی قافلۂ شام غریباں جیسے
بوڑھے برگد کے تلے سوچ میں گم مرد فقیر
آنے والا ہے کہیں سے کوئی طوفاں جیسے