رخ پہ گرد ملال تھی کیا تھی
رخ پہ گرد ملال تھی کیا تھی
حاصل ماہ و سال تھی کیا تھی
ایک صورت سی یاد ہے اب بھی
آپ اپنی مثال تھی کیا تھی
میری جانب اٹھی تھی کوئی نگہ
ایک مبہم سوال تھی کیا تھی
اس کو پا کر بھی اس کو پا نہ سکا
جستجوئے جمال تھی کیا تھی
صبح تک خود سے ہم کلام رہا
یہ شب جذب و حال تھی کیا تھی
دل میں تھی پر لبوں تک آ نہ سکی
آرزوئے وصال تھی کیا تھی
اپنے زخموں پہ اک فسردہ ہنسی
کوشش اندمال تھی کیا تھی
عمر بھر میں بس ایک بار آئی
ساعت لا زوال تھی کیا تھی
خوں کی پیاسی تھی سر زمین وطن
ایک شہر خیال تھی کیا تھی
باعث رنجش عزیزاں تھی
خوئے کسب کمال تھی کیا تھی
اک جھلک لمحۂ فراغت تھی
ایک امر محال تھی کیا تھی
کوئی خواہاں نہ تھا کہ جنس ہنر
ایک مفلس کا مال تھی کیا تھی