اسلامی سفارت رستم کے دربار میں: اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی

رستم چونکہ لڑنے سے جی چراتا تھا، ایک دفعہ اور صلح کی کوشش کی۔ سعد کے پاس پیغام بھیجا کہ تمہارا کوئی معتمد آدمی آئے تو صلح کے متعلق گفتگو کی جائے۔ سعد نے ربعی بن عامر کو اس خدمت پر مامور کیا۔ وہ عجیب و غریب ہیئت سے چلے۔ عرق گیر کی زرہ بنائی اور اسی کا ایک ٹکڑا سر سے لپیٹ لیا۔ کمر میں رسی کا پٹکا باندھا اور تلوار کے میان چیتھڑے لپیٹ لئے۔ اس ہیئت کذائی سے گھوڑے پر سوار ہو کر نکلے۔ ادھر ایرانیوں نے بڑے ساز و سامان سے دربار سجایا۔ دیبا کا فرش زرین، گاؤ تکئے ، حریر کے پردے ، صدر نشیں مرصع، ربعی فرش کے قریب آ کر گھوڑے سے اترے اور باگ ڈور کو گاؤ تکیے سے اٹکا دیا۔
درباری بے پروائی کی ادا سے اگرچہ کچھ نہ بولے۔ تاہم دستور کے موافق ہتھیار رکھوا لینا چاہا۔ انہوں نے کہا میں بلایا آیا ہوں۔ تم کو اس طرح میرا آنا منظور نہیں تو میں الٹا پھر جاتا ہوں۔ درباریوں نے رستم سے عرض کی اس نے اجازت دی۔ یہ نہایت بے پروائی کی ادا سے آہستہ آہستہ تخت کی طرف بڑھے۔ لیکن برچھی جس سے عصا کا کام لیا تھا، اس کی انی کو اس طرح فرش میں چبھوتے جاتے تھے کہ پرتکلف فرش اور قالین جو بچھے ہوئے تھے جابجا سے کٹ پھٹ کر بیکار ہو گئے۔ تخت کے قریب پہنچ کر زمین پر نیزہ مارا، جو فرش کو آرپار کر کے زمین میں گڑ گیا۔ رستم نے پوچھا کہ اس ملک میں کیوں آئے ہو؟ انہوں نے کہا کہ " اس لئے کہ مخلوق کی بجائے خالق کی عبادت کی جائے " رستم نے کہا میں ارکان سلطنت سے مشورہ کر کے جواب دوں گا۔ درباری بار بار ربعی کے پاس آ کر ان کے ہتھیار  دیکھتے تھے اور کہتے تھے اسی سامان پر ایران کی فتح کا ارادہ ہے ؟ لیکن جب ربعی نے تلوار میان سے نکالی تو آنکھوں میں بجلی سی کوند گئی۔ اور جب اس کے کاٹ کی آزمائش کے لئے ڈھالیں پیش کی گئیں تو ربعی نے ان کے ٹکڑے اڑا دیئے۔ ربعی اس وقت چلے آئے لیکن نامہ و پیام کا سلسلہ جاری رہا۔
اخیر سفارت میں مغیرہ گئے۔ اس دن ایرانیوں نے بڑے ٹھاٹھ سے دربار جمایا۔ جس قدر ندیم اور افسر تھے تاج پہن کر کرسیوں پر بیٹھے خیمے میں دیبا و  سنجاب کا فرش بچھایا گیا۔ اور خدام اور منصب دار قرینے سے دو رویہ پرے جما کر کھڑے ہوئے۔ مغیرہ گھوڑے سے اتر کر سیدھے صدر نشیں کی طرف بڑھے اور رستم کے زانو سے زانو  ملا کر بیٹھ گئے۔ اس گستاخی پر تمام دربار برہم ہو گیا۔ یہاں تک کہ چوبداروں نے بازو پکڑ کر ان کو تخت سے اتار دیا۔ مغیرہ نے افسران دربار کی طرف خطاب کر کے کہا کہ " میں خود نہیں آیا بلکہ تم نے بلایا تھا۔ اس لئے مہمان کے ساتھ یہ سلوک زیبا نہ تھا۔ تمہاری طرح ہم لوگوں میں یہ دستور نہیں کہ ایک شخص خدا بن بیٹھے اور تمام لوگ اس کے آگے بندہ ہو کر گردن جھکائیں۔ " مترجم نے جس نام عبود تھا حیرہ کا باشندہ تھا، اس تقریر کا ترجمہ کیا تو سارا دربار متاثر ہوا۔ اور بعض لوگ بول اٹھے کہ ہماری غلطی تھی جو ایسی قوم کو ذلیل سمجھتے تھے۔ رستم بھی شرمندہ ہوا اور ندامت مٹانے کو کہا کہ " یہ نوکروں کی غلطی تھی۔ میرا ایما یا حکم نہ تھا۔ " پھر بے تکلفی کے طور پر مغیرہ کے ترکش سے تیر نکالے اور ہاتھ میں لے کر کہا کہ " ان تکلوں سے کیا ہو گا؟" مغیرہ نے کہا کہ " آگ کی لو گو چھوٹی ہے پھر بھی آگ ہے۔ " رستم نے ان کی تلوار کا نیام دیکھ کر کہا " کس قدر بوسیدہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ " ہاں لیکن تلوار پر باڑھ ابھی رکھی گئی ہے۔ "  اس نوک جھونک کے بعد معاملے کی بات شروع ہوئی۔ رستم نے سلطنت کی شان و شوکت کا ذکر کر کے اظہار احسان کے طور پر کہا کہ اب بھی واپس چلے جاؤ تو ہم کو کچھ ملال نہیں بلکہ کچھ انعام دلا دیا جائے گا۔ مغیرہ نے تلوار کے قبضے پر ہاتھ رکھ کر کہا کہ " اگر اسلام اور جزیہ منظور نہیں تو اس سے فیصلہ ہو گا۔ " رستم غصہ سے بھڑک اٹھا اور کہا کہ آفتاب کی قسم کل تمام عرب کو برباد کروں گا۔ مغیرہ اٹھ کر چلے آئے اور صلح و آشتی کی تمام امیدوں کا خاتمہ ہو گیا۔

(شبلی نعمانی کی ’’الفاروقؓ‘‘ سے ایک ایمان افروز اقتباس)

متعلقہ عنوانات