فقہ اسلامی کے اماموں کے امام، یعنی امام اعظمؒ کاتعارف

معزز حضرات! عراق میں ایک خوب صورت مال دار نوجوان تھا، جس کا نام ثابت بن نعمان تھا، وہ اصلاً ایرانی تھا، متقی اور پرہیز گار تھا، ایک دن وہ نہر کے پانی سے وضو کر رہا تھا کہ اسے ایک سیب نظر آیا اس نے اسے کھا لیا، پھر اسے اندیشہ ہوا کہ کہیں اس کا کھانا حرام تو نہیں ہے؟ اس نے اس کا درخت تلاش کیا، یہاں تک کہ اس کے مالک تک جا پہنچا اور اس سے کہا: مجھے معاف کردیں، میں نے آپ کے باغ کا سیب کھالیا۔ آدمی نے اس کا جوہر پہچان لیا اور کہا: میں ایک ہی شرط پر تمھیں معاف کروں گا، وہ شرط یہ ہے کہ میری ایک بیٹی ہے جو گونگی، بہری اور اندھی ہے۔ میں تمھیں اس وقت تک معاف نہیں کروں گا جب تک کہ تم اس سے شادی نہ کر لو، اس نے سوچا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ دنیا تو عارضی ہے اور اس شادی کی شکل میں جو سزا اُسے ملے گی وہ بہرحال آخرت کے عذاب سے ہلکی ہی ہوگی۔ اس نے دل تھام کر کہا: انا للہ و انا الیہ راجعون۔ ہاں مجھے قبول ہے۔

چناں چہ آدمی نے اس نوجوان سے اپنی بیٹی کی شادی کردی۔ لیکن جب وہ اس کے پاس آیا تو حیران رہ گیا کہ وہ تو چاند جیسی دوشیزہ تھی، ذہین و فطین اور دین دار۔ اس سے رہا نہ گیا اور اس کے والد سے کہا: آپ نے یہ کیوں کہا تھا کہ وہ گونگی، بہری اور اندھی ہے؟ انھوں نے کہا: کیوں کہ اس نے نہ تو غیر مردوں پر نگاہ ڈالی ہے، نہ ان کی باتوں پر کان دھرا ہے اور نہ ہی ان سے گفتگو کی ہے۔

ان دونوں نیک، خوب صورت اور مال دار میاں بیوی کے یہاں ایک لڑکا پیدا ہوا، فیصلۂ خدا وندی سے ایسا ہوا کہ اسے اپنے والدین جیسا حسن و تقویٰ نصیب ہوا، وہ قدرتِ الہی کی ایک نشانی بن کر ابھرا اور علم و ذہانت میں دنیا کی حیرت انگیز مثال بنا۔ یہ نعمان بن ثابت تھے، ان کی کنیت ابو حنیفہ تھی۔ دل چسپ بات یہ تھی کہ حنیفہ نام کی ان کی کوئی اولاد نہیں تھی، بلکہ حنیفہ عراق کی دیہاتی زبان میں دوات کو کہتے ہیں، کہا جاتا ہے کہ بچپن سے دوات کا استعمال کرنے اور علما کے پاس جانے کے سبب لوگوں نے ان کی یہ کنیت رکھ دی۔ یعنی دوات والا۔

وہ خوش حالی، ناز و نعم، خوب صورت لباس اور مشک کی خوشبو میں پل بڑھ کر جوان ہوئے، وہ ایک بڑے تاجر تھے، ریشمی کپڑوں کی تجارت کرتے۔ پرہیز گار اور عبادت گزار تھے، پوری پوری رات عبادت کرتے اور خوفِ خدا سے روتے رہتے۔ وہ بڑے سخی تھے، ایک بار انھوں نے دس ہزار اشرفیاں بانٹ دیں، ایک بار لوگوں نے بتایا کہ فلاں عالم پر چار ہزار دینارقرضہ ہے، تو انھوں نے سب ادا کردیا۔

وہ اس طرح نوازتے گویا فقر کا ذرا اندیشہ نہ ہو۔ بہت سے علما کی تنخواہیں اپنے ذمے لے رکھی تھیں۔ انھیں دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت، علم کے ساتھ ساتھ عمل اور مال داری کے ساتھ ساتھ فیاضی کی دولت نصیب ہوئی۔ اس سلسلے میں امام لیث بن سعد ؒان کے جیسے تھے۔وہ کثرت سے علما کے یہاں جاتے اور ان سے علم اخذ کرتے، چار صحابہؓ اور ہزاروں تابعینؒ سے ان کی ملاقات رہی۔ سب سے پہلے انھوں نے علمِ کلام میں انہماک دکھایا یہاں تک کہ اس میں سب سے آگے نکل گئے، مناظرہ میں کوئی ان کے سامنے نہیں ٹکتا، بالآخر ایک واقعہ نے انھیں فقہ کی طرف متوجہ کیا، جو بہت اعلیٰ علم ہے، دین کا مغز ہے۔ وہ واقعہ یہ ہے کہ کسی خاتون نے ان سے طلاق کا کوئی مسئلہ دریافت کیا لیکن وہ اسے سمجھ نہیں پائے اور انھوں نے اس خاتون کو اپنے زمانے کے فقیہ شیخ حمّاد بن ابو سلیمانؒ کا پتا بتایا اور اس سے کہا: جاؤ ان سے دریافت کرو اور پھر مجھے بتاؤ، جب اس خاتون نے واپس آکر انھیں بتایا تو وہ شیخ حمادؒ سے وابستہ ہو گئے اور کبھی ان سے جدا نہ ہوئے۔ دس سال تک ان کے شاگرد بنے رہے۔ پھر انھیں خیال آیا کہ اپنا الگ حلقہ تدریس شروع کریں، لیکن اپنے استاذ کے احترام میں یہ خیال دل سے نکال دیا۔ایک دفعہ شیخ حمادؒ کی عدم موجودگی میں ان کے قائم مقام ہوئے اور دو مہینے میں ساٹھ مسٔلوں سے متعلق فتوے دیے، جب حماد واپس آئے تو چالیس مسٔلوں میں ان کی تائید کی اور بیس مسٔلوں میں ان سے اختلاف کیا، پھر بھی وہ ان کی مجلس سے چمٹے رہے یہاں تک کہ حمادؒ کی وفات ہوگئی۔ ان کی وفات کے بعد لوگوں نے کسی ایسے شخص کو تلاش کیا جو ان کی جگہ لے سکے، چناں چہ ان کے بیٹے سے درخواست کی، لیکن باپ کا ادب واحترام ان پر غالب رہا اور وہ یہ ذمے داری قبول نہ کر سکے، پھر لوگوں نے ایک اور بزرگ موسیٰ بن ابو کثیر کا نام پیش کیا، انھوں نے بھی قبول نہیں کیا، لوگوں کو اندیشہ ہوا کہ شیخ حمادؒ کا حلقہ کہیں ٹوٹ نہ جائے، اس لیے انھوں نے کہا کیوں نہ اس نوجوان (کپڑے کے تاجر) کو آگے بڑھائیں۔ تب لوگوں نے ابو حنیفہؒ کو آگے بڑھایا، انھوں نے اس ذمے داری کو سنبھال لیا یہاں تک کہ اس حلقہ کو ایک دائمی مدرسہ اورسدا باقی رہنے والا مسلک بنا دیا۔

ان کے ارد گرد شاگردوں کی ایک بڑی ٹیم جمع ہوگئی جو بعد میں دنیا کے بڑے لوگ بنے، ان میں کا ہر شخص کسی نہ کسی پہلو سے اپنے میدان کا ماہر ہوتا، جب کوئی مسئلہ در پیش آتا تو اس کی چھان بین اور اس پر بحث و مباحثہ کرتے۔ کبھی کبھی ایک مسئلہ کی تحقیق مہینے بھر جاری رکھتے یہاں تک کہ اس کا صحیح حکم ان کے سامنے واضح ہوجاتا۔ اس طرح ان کی مجلس علمی پارلیمنٹ ہوا کرتی اور اس کے ممبران وقت کے باکمال لوگ ہوا کرتے۔

امام شافعیؒ کے شیخ وکیع بن جراحؒ سے دریافت کیا گیا کہ: کیا ابو حنیفہؒ سے کوئی غلطی ہوئی؟ فرمایا: ابو حنیفہؒ سے کیسے غلطی ہوسکتی ہے جب کہ ان کے یہاں قیاس اور اجتہاد میں ابو یوسفؒ، زفرؒ اور محمدؒ جیسے لوگ موجود ہیں، حفظِ حدیث اور معرفتِ حدیث میں یحیٰ بن زکریاؒ، حفص بن غیاثؒ، حبانؒ اور مندلؒ جیسے لوگ ہیں، قاسم بن معنؒ جو عربی دانی میں اپنی مثال آپ ہیں، داود طائیؒ اور فضیل بن عیاضؒ جو زہد و تقویٰ میں مشہور ہیں۔ یہ اور ان جیسے لوگ ہی ان کی علمی پارلیمنٹ کے ممبر ہیں اور یہی وہ چیز ہے جس کی بنیاد پر حنفی مسلک کو دیگر مسالک کے بالمقابل ایک امتیازی شان حاصل ہے۔ امام ابو حنیفہؒ وہ پہلے شخص ہیں جنھوں نے ابواب کے ساتھ فقہ کو مرتب کیا اور امام مالکؒ نے انھی کے طرز پر اپنی مؤطأ کو ترتیب دیا۔

امام ابو حنیفہؒ کو عجیب وغریب قسم کی فقیہانہ ذہانت ملی ہوئی تھی اور احکام کے استنباط اور ان کی علتوں کے بیان کا باریک ہنر حاصل تھا۔ امام مالکؒ کے یہاں یہ چیز غالب نظر آتی ہے کہ وہ حدیث کے حافظ تھے، جسے وہ مرتب کرتے اور اس سے حکم اخذ کرتے۔ امام احمدؒ محدث تھے، متقدمین نے انھیں فقہ کے اصحابِ مذاہب میں شمار نہیں کیا ہے۔ امام شافعیؒ نے امام مالکؒ اور امام ابو حنیفہؒ کے بیچ کی راہ اپنائی ہے؛ کیوں کہ انھوں نے امام مالکؒ اور امام محمدؒ دونوں سے کسبِ فیض کیا ہے، اس طرح وہ امام ابو حنیفہؒ کے شاگرد کے شاگرد ہوئے۔

امام ابو حنیفہؒ کے سامنے جب کوئی مسئلہ مشکل اور پیچیدہ نظر آتا تو اپنے اصحاب سے کہتے: مسئلہ سمجھنے میں یہ دشواری کسی گناہ کا نتیجہ معلوم ہوتی ہے۔ چناں چہ وہ اللہ تعالیٰ سے توبہ و استغفار کرتے اور نماز ادا کرتے یہاں تک کہ ان کے سامنے مسئلہ واضح ہوجاتا۔ اس طرح وہ غور و فکر کے ساتھ اللہ سے ڈرتے ہوئے فتویٰ دیتے۔

ان کی ذہانت اور ان کے قانونی غور و فکر کے طریقہ کی ایک مثال یوں ملتی ہے کہ ضحّاکؒ تحکیم (ثالث بنانے) کو نہیں مانتے تھے جب کہ ابو حنیفہؒ اس کے قائل تھے، چناں چہ ضحّاکؒ نے انھیں مناظرہ کی دعوت دی تو ابو حنیفہؒ نے ان سے کہا: اگر ہمارے بیچ اختلاف واقع ہوا تو فیصلہ کون کرے گا؟ ضحّاکؒ نے کہا: کسی کو منتخب کرلیں، ابو حنیفہؒ نے کہا: میں نے آپ کے اصحاب میں سے فلاں کو منتخب کرلیا، ضحّاکؒ نے کہا: آئیے اب مناظرہ کیجیے، ابو حنیفہؒ نے کہا: میرا آپ سے مناظرہ ہوچکا اور آپ پر فتح بھی حاصل کرلی، کیوں کہ آپ نے تحکیم کو جائز قرار دے دیا۔

مالکؒ، لیثؒ، اوزاعیؒ، شافعیؒ، سفیانؒ اور ابن مبارکؒ جیسے ائمۂ کبار اس بات کے گواہ ہیں کہ انھوں نے آپ کے جیسا کبھی بھی کسی کو نہیں پایا۔

انھوں نے اپنی پوری زندگی اپنی کمائی سے گزاری۔ مال اور علم تقسیم کرتے رہے۔ لوگوں کو فقہ، تقوے اور سخاوت کی تعلیم دیتے رہے۔ لوگوں نے دو بار انھیں حاکم (گورنر) بنانا چاہا: ایک بار بنی امیہ کے عہد میں اور ایک بار بنی عباس کے زمانے میں۔ دونوں بار انھیں زد و کوب کیا گیا، لیکن انھوں نے قبول کرنے سے انکار کردیا، چناں چہ آخری بار کی سختی ان کی وفات کا سبب بنی۔

آج حنفی مسلک تمام مسالک کے مقابلے میں سب سے وسیع پیمانے پر پھیلا ہوا ہے اور مسائل و اقوال کے پہلو سے اس کا دامن سب سے زیادہ کشادہ اور مالا مال ہے۔ نئے نئے قوانین کے استنباط اور عدالتی اجتہادات کے سلسلے میں یہ سب سے مفید مسلک ہے۔ کثرتِ مسائل میں مالکی مسلک اس سے قریب تر ہے، اس کا ادراک مجھے اس عرصے میں ہوا جب میں پرسنل لا کے پروجیکٹ میں مصروف تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حنفی مسلک دور عباسی اور دور عثمانی میں پوری مملکت کا مسلک بنا رہا۔ یہ عرصہ تاریخ اسلامی کے تین چوتھائی حصہ پر محیط ہے جب کہ مالکی مسلک اس پورے عہد میں مغربی افریقہ کا مسلک رہا، اس لیے دونوں میں مسائل اور مباحث کی کثرت رہی۔ رہا شافعی مسلک تو یہ ایوبی عہد کے تھوڑے عرصے کو چھوڑ کر کبھی سرکاری مسلک نہ بن سکا، دوسری طرف حنبلی مسلک آج بھی نجد اور حجاز تک ہی محدود ہے۔

اللہ کی رحمت ہو اِن اماموں پر اور ان سے پہلے اور ان کے بعد کے ان اماموں پر جن کے مسلک کی تدوین نہ ہوسکی۔ ورنہ امام لیثؒ، امام اوزاعیؒ، امام سفیانؒ اورامام حمادؒ ان چار اماموں سے کم نہ تھے۔ اللہ کی رحمت ہو امام ابو حنیفہؒ پر، جو ان سب میں سب سے پیش پیش اور سب سے زیادہ با کمال تھے اور جنھیں بجا طور پر امامِ اعظم کے نام سے جانا جاتا ہے۔

(ترجمہ: محمد اکمل فلاحی)

متعلقہ عنوانات