روز و شب اس سوچ میں ڈوبا رہتا ہوں
روز و شب اس سوچ میں ڈوبا رہتا ہوں
غم کو پا کر بھی میں کتنا تنہا ہوں
السائے ماضی کے سوکھے پیڑ تلے
چھاؤں کی امید لگائے بیٹھا ہوں
ابر گریزاں مجھ پر بھی بس ایک نظر
راہ میں تیری صدیوں پیاسا صحرا ہوں
مجھ سے روٹھ کے دور نہ جا پاؤ گے تم
میں چاروں جانب ہوں افق تک پھیلا ہوں
تنہائی میں جب دم گھٹنے لگتا ہے
تیری تحریروں کا امرت پیتا ہوں
کیوں تو مجھ کو گلیوں گلیوں ڈھونڈے ہے
میں تیرا سایہ ہوں تجھی میں رہتا ہوں