روز فراق ہر طرف اک انتشار تھا
روز فراق ہر طرف اک انتشار تھا
میں بے قرار تھا تو جہاں بیقرار تھا
نقش طلسم میرا دل داغدار تھا
تھا دن کو پھول رات کو شمع مزار تھا
یادش بخیر یاد ہیں دل کی مصیبتیں
پہلو میں اک ستم زدۂ روزگار تھا
اللہ رے شام غم مرے دل کی شکستگی
تاروں کا ٹوٹنا بھی مجھے ناگوار تھا
وحشت طراز تھی کشش شام بیکسی
مرقد سے اپنے دور چراغ مزار تھا
کیا دیتے ہم کسی کو دعائے سلامتی
اپنی ہی زندگی کا کسے اعتبار تھا
سیمابؔ نالہ کر کے پشیمانیاں فضول
وہ کام کیوں کیا جو انہیں ناگوار تھا