روز ازل سے جاری سزاؤں کا سلسلہ
روز ازل سے جاری سزاؤں کا سلسلہ
پھر بھی تھما نہیں ہے خطاؤں کا سلسلہ
قائم ہے اب بھی میری وفاؤں کا سلسلہ
اک سلسلہ ہے ان کی جفاؤں کا سلسلہ
اب اشک بار ہوتے نہیں ہیں دعاؤں میں
ناکام یوں ہوا ہے دعاؤں کا سلسلہ
پاؤں تلے زمیں نہ ملا آسماں کوئی
میرا سفر ہے جیسے خلاؤں کا سلسلہ
آزاد ہو چکی ہوں ہر اک سلسلے سے میں
لے جائے اب کہیں بھی ہواؤں کا سلسلہ
خود ساختہ خداؤں نے جینا کیا محال
رب جانے کب رکے گا خداؤں کا سلسلہ
مفلس کی زندگی تو ہے مفلس کی زندگی
خاموش ان کہی سی صداؤں کا سلسلہ