رزق کی جستجو میں کسے تھی خبر تو بھی ہو جائے گا رائیگاں یا اخی

رزق کی جستجو میں کسے تھی خبر تو بھی ہو جائے گا رائیگاں یا اخی
تیری آسودہ حالی کی امید پر کر گئے ہم تو اپنا زیاں یا اخی


جب نہ تھا یہ بیابان دیوار و در جب نہ تھی یہ سیاہی بھری رہ گزر
کیسے کرتے تھے ہم گفتگو رات بھر کیسے سنتا تھا یہ آسماں یا اخی


جب یہ خواہش کا انبوہ وحشت نہ تھا شہر اتنا تہی دست فرصت نہ تھا
کتنے آباد رہتے تھے اہل ہنر ہر نظر تھی یہاں مہرباں یا اخی


یہ گروہ اسیران کذب و ریا بندگان درم بندگان انا
ہم فقط اہل دل یہ فقط اہل زر عمر کیسے کٹے گی یہاں یا اخی


خود کلامی کا یہ سلسلہ ختم کر گوش و آواز کا فاصلہ ختم کر
اک خموشی ہے پھیلی ہوئی سربسر کچھ سخن چاہیے درمیاں یا اخی


جسم کی خواہش سے نکل کر چلیں زاویہ جستجو کا بدل کر چلیں
ڈھونڈنے آگہی کی کوئی رہ گزر روح کے واسطے سائباں یا اخی


ہاں کہا تھا یہ ہم نے بچھڑتے ہوئے لوٹ آئیں گے ہم عمر ڈھلتے ہوئے
ہم نے سوچا بھی تھا واپسی کا مگر پھر یہ سوچا کہ تو اب کہاں یا اخی


خود شناسی کے لمحے بہم کب ہوئے ہم جو تھے در حقیقت وہ ہم کب ہوئے
تیرا احسان ہو تو بتا دے اگر کچھ ہمیں بھی ہمارا نشاں یا اخی


قصۂ رنج و حسرت نہیں مختصر تجھ کو کیا کیا بتائے گی یہ چشم تر
آتش غم میں جلتے ہیں قلب و جگر آنکھ تک آ رہا ہے دھواں یا اخی


تو ہمیں دیکھ آ کر سر انجمن یوں سمجھ لے کہ ہیں جان بزم سخن
اک تو روداد دلچسپ ہے اس قدر اور اس پر ہمارا بیاں یا اخی


عمر کے باب میں اب رعایت کہاں سمت تبدیل کرنے کی مہلت کہاں
دیکھ باد فنا کھٹکھٹاتی ہے در ختم ہونے کو ہے داستاں یا اخی


ہو چکا سب جو ہونا تھا سود و زیاں اب جو سوچیں تو کیا رہ گیا ہے یہاں
اور کچھ فاصلے کا یہ رخت سفر اور کچھ روز کا نقد جاں یا اخی