روایتوں کے ابھی آفتاب باقی ہیں
روایتوں کے ابھی آفتاب باقی ہیں
شرافتوں کے ابھی ماہتاب باقی ہیں
یہ مانا ہم نے کہ آزاد ہو چکے لیکن
ابھی غلامی کے ہم پر عذاب باقی ہیں
انہی کے دم سے ہے رونق یہی ہیں سرمایہ
بکھیرتے ہوئے خوشبو گلاب باقی ہیں
یہ ترجمان حیات بشر ہیں دیکھو تو
ابھرتے پھوٹتے اب بھی حباب باقی ہیں
حقیقتوں سے جو پردہ اٹھا ہوا معلوم
بہ نام دوست ابھی تک سراب باقی ہیں