آنکھ کے پردے کے پیچھے اک سماں رہ جائے گا
آنکھ کے پردے کے پیچھے اک سماں رہ جائے گا
آگ کے شعلے بجھے تب بھی دھواں رہ جائے گا
کیا عجب کل پھر یقیں میں شک کی آمیزش ملے
شک اگر مٹ بھی گیا پھر بھی گماں رہ جائے گا
صرف ہونے کو فنا ہے جو نہیں اس کی بقا
آسماں کچھ بھی نہیں ہے آسماں رہ جائے گا
تیری قربت سے حسیں موسم بھی ہے خوشبو بھی ہے
قربتیں گر نہ رہیں پھر کیا یہاں رہ جائے گا
تجھ سے ملنے کی مسرت اور بچھڑنے کا ملال
ہے مسرت عارضی سوز نہاں رہ جائے گا
جسم اک خالی مکاں تھا آج سے آباد ہے
روح جب اڑ جائے گی مکاں رہ جائے گا
لوگ کہتے ہیں حساب دوستاں در دل شود
آج مرزاؔ یہ مقولہ بھی کہاں رہ جائے گا