ردائے راحت کون و مکان اوڑھ کے دیکھ

ردائے راحت کون و مکان اوڑھ کے دیکھ
زمین اوڑھ کے دیکھ آسمان اوڑھ کے دیکھ


طلسم ٹوٹ چکا جب چراغ ظلمت کا
کبھی صباحت نام و نشان اوڑھ کے دیکھ


پڑا رہے گا کہاں تک تو اپنے ترکش میں
خدنگ جستہ اگر ہے کمان اوڑھ کے دیکھ


قریب آ ہی گیا ہے اگر وہ ابر کرم
سفر میں آج یہی سائبان اوڑھ کے دیکھ


ہوائے شہر حقیقت میں سانس لیتے ہوئے
نگار خانۂ وہم و گمان اوڑھ کے دیکھ


پھر ایک بار کسی جنگ پر نکلتے ہوئے
فضائے قریۂ امن و امان اوڑھ کے دیکھ


نیا لباس پہننے کا وقت ہے ساجدؔ
شکوہ اوڑھ کے دیکھ آن بان اوڑھ کے دیکھ