روشنیاں بدن بدن تیرے مرے لہو سے ہیں
روشنیاں بدن بدن تیرے مرے لہو سے ہیں
لمس کی ساری لذتیں جسم کی ہاؤ ہو سے ہیں
قربت روز روز میں رنجشیں اتنی بڑھ گئیں
وہ بھی گریز پا سے ہیں ہم بھی بہانہ جو سے ہیں
ڈر ہے کہ شام ہجر میں دل کا دیا بجھا نہ دیں
اب کے ہوا کی سازشیں شعلۂ آرزو سے ہیں
جتنے خزاں کے ڈھنگ ہیں جتنے فضا میں رنگ ہیں
میرے ہی خار و خس سے ہیں میرے ہی رنگ و بو سے ہیں
میری متاع زندگی خواہش زخم ہی تو ہے
میرے جنوں کے سلسلے لذت جستجو سے ہیں
خوش ہیں کہ لوٹ آئے ہیں سارے مسافران غم
گرچہ یہ سرخ رو نہیں پھر بھی یہ سرخ رو سے ہیں
جس کے کمال طنز سے شہر سراپا زخم ہے
اس کو سبھی شکایتیں محسنؔ قند خو سے ہیں