روشنی

وہ جو زندگی کا قرار تھی
وہی صبح نور کہاں گئی
وہ جو خواب ناز تھے کیا ہوئے
مئے پر سرور کہاں گئی


وہ جو انتظار قرار تھا
وہی انتظار رار ہے
وہ دکھن ہے دل میں نہاں ابھی
دل ناصبور کہاں گئی
وہی تیرگی کا حصار ہے
شب و روز پر مہ و سال ہے
ہے جوار قلب پہ تیرگی
ابھی دل سے دور کہاں گئی
مرے شہریار تری سماعت شوق بیش
مگر یہاں
وہ ہے کون جس نے فغاں نہ کی
پہ ترے حضور کہاں گئی
یہاں اب مآل گزشتہ شب
نئی ایک شب کا نفاذ ہے
وہ جو صبح فردا کی آرزو تھی
تھکن سے چور کہاں گئی
اسی تیرگی میں یہ نور کی
جو لکیر پھوٹی ہے آہ سے
عجب ایک منظر جاں فزا
کہ گزر رہا ہے نگاہ سے
ابھی کون قریۂ جاں سے
سوئے عدم گئے ہیں لہو لہو
کہ عجب چراغ سے جل اٹھے
سر قتل گاہ گلو گلو
اسی روشنی میں تمام چہرے
کہ آئے جاتے ہیں رو بہ رو
کوئی سر کشیدہ و خندہ زن
کوئی سر خمیدہ سیاہ رو