رنج کی خوگر طبیعت ہو گئی
رنج کی خوگر طبیعت ہو گئی
لیجئے جینے کی صورت ہو گئی
آپ ناحق ہو رہے ہیں شرمسار
میری جو ہونی تھی حالت ہو گئی
ہو گئے دیوانے ہم اچھا ہوا
روز کے جھگڑوں سے فرصت ہو گئی
ایک کانٹا سا کھٹکتا ہے مدام
دل کی دشمن دل کی حسرت ہو گئی
مے کشی کی کیا کہوں رہبرؔ کہ یہ
ہوتے ہوتے میری عادت ہو گئی