برستی آگ سے کچھ کم نہیں برسات ساون کی

برستی آگ سے کچھ کم نہیں برسات ساون کی
جلا کر خاک کر دیتی ہے دل کو رات ساون کی


اٹھی ہیں کالی کالی بدلیاں کیا تم نہ آؤ گے
گزر جائے گی کیا تنہا بھری برسات ساون کی


کسی کی یاد آتی ہے لئے اشکوں کی طغیانی
ملی ہے جھولیاں بھر کر ہمیں سوغات ساون کی


ڈگر سنسان بجلی کی کڑک پر ہول تاریکی
مسافر راہ سے نا آشنا برسات ساون کی


تمہارے منتظر رہتے ہیں ساون کے حسیں جھولے
کیا کرتی ہے یاد اکثر تمہیں برسات ساون کی


تہی دستی کا عالم جام مے ساقی نہ پیمانہ
یہ کس نے چھیڑ دی ایسے میں رہبرؔ بات ساون کی